گوادر پورٹ کی تاریخ بڑی پرانی ہے ۔ اس کو 1950کی دہائی میں تعمیر اور مکمل ہونا تھا ۔ 1960کی دہائی میں برطانیہ نے گوادر پورٹ تعمیر کرنے کی پیش کش کی ۔ پاکستان کی جانب سے یہ مطالبہ شامل ہوا کہ گوادر میں نیوی سہولیات بھی فراہم کی جائیں تو برطانیہ نے اپنی پیش کش وپس لی ۔بعد کے سالوں میں حکومت پاکستان نے بعض مغربی ممالک سے رابطہ کیا اور ان کو یہ پیش کش کی کہ تجارتی بنیادوں پر گوادر پورٹ کی تعمیر کریں ۔ ان ممالک نے اربوں ڈالر کا مطالبہ کیا ۔آخر کار چین پاکستان کی مدد کو آیا اور چالیس کروڑ ڈالر کی قرض امداد فراہم کی اور موجودہ صور ت میں گوادر پورٹ کی تین برتھیں تعمیر ہوئیں ۔ یہ منصوبہ یااس کا پہلا فیز 2006میں مکمل ہوا ۔ اسی دوران وزیراعظم شوکت عزیز اور صدر پرویزمشرف کے درمیان اختلافات سامنے آئے ۔ شوکت عزیز نے گوادر پور ٹ دبئی پورٹ اتھارٹی کو دیا جبکہ صر پرویزمشرف نے اس کو ویٹو کردیا اور پورٹ سنگاپور پورٹ اتھارٹی کے حوالے کیا ۔ چونکہ گوادر پورٹ کے لئے آمدنی کا ذریعہ نہیں تھا اس لئے کراچی کے کارگو کو گوادر کے ذریعے لایا گیا ۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ کا یہ مطالبہ تھا کہ گوادرپورٹ کو فعال کیاجائے تو کراچی کا کارگو گوادر میں اتار ا گیا ۔ اس طرح سے گوادر پورٹ کو فعال کیا گیا اور وزیراعلیٰ کا مطالبہ پورا کیا گیا ۔اس دن سے اب تک گوادر پورٹ کی توسیع اور تعمیر سے متعلق کوئی کام نہیں ہوا ۔ گوادر پورٹ کے دوسرے مرحلے پر کام چین نے کرنا تھا۔ صدر پاکستان نے چین کو نکال باہر پھینک دیا ۔ حال ہی میں حکومت پاکستان کو یہ خیا ل آیا کہ گوادر پورٹ کی تعمیر تو صرف چین کر سکتی ہے اور کوئی تجارتی ادارہ نہیں کرسکتا ۔ اس لئے ٹھیکہ سنگا پور پورٹ اتھارٹی اور اس کے ٹھگ ڈائریکٹروں سے واپس لے کر دوبارہ چین کے حوالے کیاگیا ۔ اس میں یہ تاثر دیا گیا کہ پورٹ کے منصوبے کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر بھی چین کرے گا بلکہ گوادر پورٹ منصوبہ پر مکمل سرمایہ کاری کرے گا ۔ وفاق پاکستان اس کی تعمیر و ترقی سے بری الذمہ قرار پائے گا۔ دوسری جانب ریاستی ادارے ، مقتدرہ اور حکمران ٹولہ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ گوادر پورٹ کی وجہ سے پورے ملک میں خوشحالی آئے گی ۔ یہ باتین پاکستان کے اندر مایوس لوگوں کی ہمت بڑھانے کیلئے کی جاتی ہیں ۔ اس کا گوادر پورٹ کی تعمیر اور ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بنیادی طورپر حکمران طبقات بلوچستان اوربلوچوں کے بارے میں متعصب ہیں انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ گوادر پورٹ کے منصوبے کو مکمل نہیں کرنا ہے ۔ مکمل منصوبے کے تحت گوادر پورٹ کی بندر گاہ میں ستر سے زیادہ برتھیں تعمیر ہوں گی ۔ دس سے زائد برتھیں جہازوں کی مرمت اور صفائی کیلئے مختص ہوں گی ۔ کہاں ستر برتھیں اور کہاں صرف تعمیر شدہ موجودہ تین برتھیں ۔ اس کا بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں بنایا گیا تو پورٹ کیسے مکمل ہوگا۔ آج کل نہ پورٹ میں پانی پینے کو ہے اور نہ بجلی ، دوسرے الفاظ میں گوادر پورٹ خلاء میں معلق ہے جو پاکستانی حکومت کے کام نہیں آئے گا نہ ہی مقتدرہ یہ اجاز ت دے گی کہ گوادر پورٹ کے منصوبے کو مکمل کیاجائے اس کے برعکس گوادر سے 72کلو میٹر دور چہاہ بہار کی بندرگاہ ایرانی بلوچستان کے علاوہ وسطی ایران کی ضروریات کو پوری کررہا ہے ۔ اس کی جلد اور تیز رفتار ترقی کیلئے ایرانی حکومت نے آزاد تجارتی علاقہ قائم کیا ہے ۔ یہاں پر کاریں بنانے کا بڑا کارخانہ لگایا گیا ہے بلکہ ایک سے زیادہ کارخانے ہیں اب اس کی مزید ترقی کیلئے بھارت تیس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا ۔ بھارت چہاہ بہار میں اپنی موجودگی کو جلد ثابت کرے گا۔ بھارت کے وزیر جہاز رانی کے مطابق بھارتی کابینہ اگلے چند دنوں میں اس کا فیصلہ کرے گی کہ بھارت اپنی سرحدوں سے دور چہاہ بہار پورٹ پر زبردست سرمایہ کاری کرے گا بھارت نے اس دل چسپی کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ ایران کے اندر ریل اورسڑک کے ذریعے چہاہ بہار کی بندر گاہ کو افغانستان اور وسطی ایشیائی سے ملائے گا بلکہ اس میں حصہ دار بنے گا تاکہ بھارتی اشیاء چہاہ بہار کے ذریعے افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک تک پہنچ جائیں۔ دوسری جانب ایران کو یہ جائز توقع ہے کہ وہ اشیاء کی راہداری سے 10ارب ڈالر سالانہ کمائے گا بھارت کی تمام تجارت بندر عباس سے منتقل ہو کر چہاہ بہار کی بندر گاہ آئے گی جس سے اشیاء کی ترسیل تیز رفتاری سے ہوگی ۔ دوسری جانب حکومت پاکستان اور اس کی مقتدرہ قوتیں گوادر بندر گاہ کی ترقی کیلئے گزشتہ ا یک دہائی سے زبانی جمع خرچ کررہے ہیں ۔ اگر حکومت پاکستان اپنے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں گوادر پورٹ کے لیے چند ارب رکھتی تو آج پاکستان اس قابل ہوتا کہ دس ارب ڈالر راہداری سے کما سکتاتھا ۔ چونکہ گوادر بلوچستان میں ہے اس لئے اس پر حکومتی سرمایہ کاری نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔
گوادر پورٹ ، ایک مکمل نہ ہونے والا منصوبہ
وقتِ اشاعت : September 20 – 2014