کورونا وائرس کے ساتھ اب رہنا ہی ہے اس لئے وہ اقدامات اٹھانے پرغور کیاجائے کہ کس طرح سے ملکی معیشت کو واپس ڈگر پر لایا جائے۔چونکہ تجارتی سرگرمیوں کی بندش اس کا حل نہیں جس طرح سے رمضان کے آخری عشرے کے دوران تجارتی مراکز کو کھولنے کا فیصلہ کیا گیا جس سے تاجر برادری کو بڑے نقصان سے بچنا پڑا وگرنہ صورتحال خراب ہوتی، اس لئے اب اس جانب توجہ دینی چاہئے کہ کس طرح سے وباء کو بھی روکاجائے اور معاشی سرگرمیاں بھی معمول کے مطابق چلتی رہیں۔ چونکہ غریب عوام مزید سخت لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہوسکتے ایس اوپیز پر عملدرآمد کرانے کی ذمہ داری صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ کی ہے۔
سارا ملبہ غریب عوام پر نہ ڈالاجائے۔ جس طرح دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کیا گیا تو ریاست نے پہلے اپنی ذمہ داری نبھائی جس کے بعد عوام نے فیصلوں پر من وعن عمل کیا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں آگاہی دینے کی بجائے خوف اور وہم کو زیادہ شہ دی جارہی ہے۔ ماہرین تو اول روز سے ہی اپنے خدشات کا اظہار کررہے ہیں کہ ملک بھر میں کرفیو نافذکی جائے وگرنہ صورتحال خراب ہوگی مگر جب عام مریض اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں تو ان میں کورونا وائرس کے علامات نہ ہونے کے باوجود انہیں کورونا مریض ڈکلیئر کردیا جاتا ہے اور ظلم یہ ہے کہ ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد انہیں گھرروانہ کرکے وہیں پر آئسولیٹ ہونے کا مشورہ دیاجاتا ہے مگر مکمل علاج کے حوالے سے ادویات کے متعلق آگاہی نہیں دی جاتی۔
لہٰذا ماہرین صرف کرفیو اور سخت لاک ڈاؤن کے حوالے سے دباؤ نہ بڑھائیں بلکہ عام لوگوں کے علاج پر بھی توجہ دیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹرز اور طبی عملہ نے اس دوران قربانیاں دی ہیں مگر یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ عام لوگوں کو کرفیو کی صورت میں کس طرح کی اذیت سے گزرنا پڑے گا،ملک میں عوام کی بڑی تعداد کا ذریعہ معاش روزانہ کی اجرت سے وابستہ ہے اگر سب کچھ بند کردیا جائے گا تو لوگ بھوک سے مرینگے، اس لئے ایس اوپیز اور ضابطہ کار پر عملدرآمد کو یقینی بنایاجائے اور ساتھ ہی نجی کلینکس سمیت سرکاری اسپتالوں کے اوپی ڈیز کو بھی عام لوگوں کیلئے کھولاجائے تاکہ دیگر بیماریوں سے ان کی موت واقع نہ ہو۔خدارا فیصلوں میں عوامی مشکلات کو مدِ نظر رکھاجائے۔
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونا کے مقامی سطح پر پھیلاؤ کی شرح 92 فیصد ہے لہٰذا عوامی مقامات پر ماسک کے استعمال کو لازمی قرار دے رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اب تک 5 لاکھ 32 ہزار کورونا ٹیسٹ آچکے ہیں،پاکستان میں کورونا وائرس کے مقامی پھیلاؤ کی شرح 92 فیصد جبکہ صحت یابی کی شرح 36 فیصد ہے، طے کردہ ضابطہ کار اور گائیڈ لائنز پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر ظفرمرزا کا کہنا تھا کہ وائرس سے بچاؤ کیلئے سرجیکل اور کپڑے کے ماسک استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
مساجد، بازاروں، دکانوں، پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹرین میں ماسک پہننالازمی ہوگا۔بہرحال گائیڈلائنز اور ضابطہ کار کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ وباء کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے،لوگوں کو گھروں میں بند کرکے سب کچھ بہتر نہیں ہوگا۔ اب دنیا بھی لاک ڈاؤن سے نکلنے کے فیصلے کرنے جارہی ہے کیونکہ اب کورونا وائرس کے ساتھ رہنا ہے مگر احتیاط کے ساتھ۔ لہٰذا احتیاطی تدابیر ہی واحد حل ہیں جو وباء سے بچاؤ کیلئے کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں۔