ریاست لسبیلہ بے شمار جنگوں پر مشتمل ایک پوشیدہ تاریخ رکھتی ہے جس سے پردہ اٹھانا ایک اورجنگ کا محاذ کھولنے کے مترادف ہے۔ ہر ریاست تاریخ کو مسخ کرکے اپنی ایک جھوٹی تاریخ متعارف کراتی ہے۔ تاکہ وہ جھوٹ کی بنیاد پر بآسانی حکمرانی کرسکیں۔ اسی طرح ریاست لسبیلہ کے جدگال حکمرانوں نے ایک جھوٹی تاریخ پر اپنی ریاست قائم کی۔ اپنے بھائیوں کو دھوکہ دے کر ریاست پر قبضہ جمایا۔ حالانکہ ریاست لسبیلہ کے اصل وارث صرف جاموٹ کی ذیلی شاخ عالیانی نہیں ہیں بلکہ گنگو اور برفت اقتدار میں برابر کے شراکت دار ہیں۔
ان کے درمیان یہ معاہد طے ہوا تھا کہ باری باری ریاست کی سربراہی ایک قبیلے سے دوسرے قبیلے کو منتقل کی جائے گی۔ لیکن جاموٹوں نے نواب آف مکران اور خان قلات کی مدد حاصل کرکے ریاست پر دوبارہ بزورطاقت قبضہ جمایا۔ اور گنگو اور برفت جدگالوں کو اقتدار سے باہر پھینک دیا۔جاموٹ، گنگو، برفت، ہمالانی (ملک) اور ساسولی قبائل کا تعلق جدگال نسل سے ہیں۔ جدگال کا مطلب ہے ہماری بولی نہیں بولنے والا۔ ایک جدا بولی بولنے والا۔ دراصل جدگال زبان بلوچی، فارسی اور سندھی کا مرکب ہے۔ آج بھی جدگالی زبان لسبیلہ، کراچی، ایران سمیت خلیج کے دیگر ممالک میں بولی جاتی ہے۔
جدگال بلوچ قوم میں ایک طاقتور اور جنگجو قبائل میں شمار ہوتا ہے۔ جام عالیانی اپنے آپ کو راجپوت نسل سے بتاتے ہیں لیکن اس کے کوئی تاریخی شواہد نہیں ملتے۔ بلوچوں میں صرف گچکی قبیلہ ایک ایسا قبیلہ ہے جو نسلاً راجپوت ہیں۔جدگال بلوچوں کی ریاست دشتیار (ایران) سے لے کر کوٹری (سندھ) تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس ریاست کی آخری والی مائی چاہ گلی تھی۔ مائی چاہ گلی کے بھائی نہ ہونے کی وجہ سے تمام جدگال قبائل نے متفقہ طورپر مائی چاہ گلی کو ریاست کا سربراہ مقرر کیا۔ مائی چاہ گلی نے جدگال ریاست کو بیرونی حملہ آوروں سے بچانے کے لئے ریاست کا تخت (دارالخلافہ) بیلہ سے کوٹری منتقل کردیا۔
مائی چاہ گلی کے دور میں دشتیار سے لے کر کوٹری تک عدل و انصاف کا بول بالا تھا۔ ہر طرف خوشحالی تھی۔ وہ آخری ایام تک کوٹری میں رہی۔ اس کی قبر آج بھی کوٹری میں ہے۔ اس کے انتقال کے بعد آہستہ آہستہ ریاست زوال کی طرف گامزن ہوگئی۔ اور سکڑ کر لسبیلہ تک محدود ہوتی گئی۔ اس طرح ریاست لسبیلہ بھی 1742 سے 1955 تک اپنا سفر طے کرکے زوال پذیر ہوجاتی ہے اور ریاست لسبیلہ کا پاکستان سے الحاق کیا گیا۔ موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی کے دادا جام غلام قادر عالیانی ریاست لسبیلہ کے آخری والی تھے۔ اس طرح یہ عروج اور زوال کا سفر جام علی خان سے آغاز ہوکر جام غلام قادر تک زوال پذیر ہوجاتا ہے۔ یہ سلسلہ گیارہ پشتوں تک چلتا ہے۔
1742 کو جدگال قبائل کے سربراہوں کے درمیان یہ معاہدہ طے پا گیا کہ گنگو اور برفت باری باری ریاست لسبیلہ کے سربراہ ہونگے۔ اس فیصلے کی رْو سے ریاست کی سربراہی جاموٹوں کو مل گئی۔ اور ریاست کا پہلا سربراہ جام علی خان کو مقرر کیا گیا۔ کچھ عرصے بعد جام علی خان نے اپنا ایک وصیت نامہ جاری کیا جس کے مطابق اس کے بعد ریاست کا سربراہ ان کے بیٹے جام غلام شاہ ہونگے۔ جس پر برفت اور گنگو قبائل نے سخت تشویش کا اظہار کیا اور نوبت لڑائی تک جا پہنچی۔ جس کے نتیجے میں برفت اور گنگو قبائل نے ملکر ریاست لسبیلہ کے تخت بیلہ پر قبضہ کرلیا۔
اور جام ابراہیم گنگو کو ریاست لسبیلہ کا سربراہ بنادیا گیا۔ اس جنگ میں جاموٹوں کی بری طرح شکست ہوئی اور وہ بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ جام علی خان نے دوبارہ ریاست لسبیلہ قبضہ کرنے کے لئے خان آف قلات اور نواب آف مکران سے مدد مانگی۔خان آف قلات نے موجودہ ضلع آواران اور ضلع خضدار سے محمودانی ساجدی اور جبکہ قلات کے علاقے گدر سے بلوچوں کا لشکر تیار کیا۔ وقت کے ساتھ لفظ گدر بگڑ کر گدور بن گیا۔ اس طرح گدر سے آنے والے بلوچ آج لسبیلہ میں گدورکے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گدور دراصل زہری قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
جبکہ نواب آف مکران کے گچکیوں نے کیچ کے سردار میر کنہر سنگھور (اول) کی مدد سے سنگھور قبیلے کے سینکڑوں افراد پرمشتمل ایک لشکر کیچ سے لسبیلہ کی جانب روانہ کردیا۔ سنگھوروں نے اورماڑہ کے مقام پر برفت اور گنگو کا مقابلہ کیا۔ واضح رہے کہ اس زمانے میں اورماڑہ ریاست لسبیلہ کا حصہ تھا۔ اورماڑہ قبضہ کرنے کے بعد لشکر نے پیش قدمی کرتے کرتے ہنگول اور سونمیانی پر بھی قبضہ جمالیا۔ اس لڑائی میں پندرہ سنگھور مارے جاتے ہیں۔ جبکہ برفت اور گنگوؤں کے سینکڑوں افراد قتل کیے جاتے ہیں۔ محمودانی ساجدی اور گدوروں نے خضدار اور آواران کے راستے سے ہوتے ہوئے تخت لسبیلہ کی جانب پیش قدمی کی اور موجودہ تحصیل لیاری کے میدانی علاقے آڑوئی پٹ کے مقام پر برفتوں اور گنگوؤں سے جنگ چھڑ گئی۔
اس جنگ میں بارہ ساجدی اور دس گدور مارے گئے۔ تاہم ساجدی اور گدور جنگ میں کامیاب ہوگئے اور بیلہ شہر پر بھی انہوں نے قبضہ کرلیا۔ جنگ کی کامیابی کے بعد جام علی خان کے بیٹے جام غلام شاہ کو ریاست لسبیلہ کا والی بنادیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں سینکڑوں برفت اور گنگو مارے جاتے ہیں۔ جبکہ بعض برفت اور گنگو، کھیر تھر کی جانب بھاگ جاتے ہیں۔ دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد جام آف لسبیلہ نے خون بہا کے عوض ساجدی، گدور اور سنگھور قبائل کے لوگوں کو لسبیلہ میں اراضی دی۔ اور انہیں مختلف علاقوں میں آباد کیا گیا۔
گدور قبیلے کے لوگوں کو بیلا شہر، لیاری، لک پاس، پیربمبل اور جھاؤ کے پہاڑی علاقوں سمیت کنڈ حب کے مقام پر ساحل سمندر کے کنارے آباد کیا گیا۔ جہاں ان کو زمینیں دی گئیں۔ جن میں اللہ نہ گدور گوٹھ، قادربخش گوٹھ اور عباس گدور گوٹھ شامل ہیں۔ حب پاور پلانٹ، چائنا حب پاور جنریشن پلانٹ سمیت بائیکو آئل ریفائنری بھی انہیں کی اراضی پر قائم ہیں۔تاہم ان کے دروازے مقامی گدوروں کے لئے بند ہیں۔بیلا شہر میں گدوروں کی بڑی تعداد آباد ہے، ان کا الگ ایک محلہ قائم ہے۔ اسی طرح پیر بمبل سے لیکر جھاؤ تک ان کی آبادی ہے۔
گزشتہ سال جھاؤ کے علاقے میں سردار حبیب اللہ گدور کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ گدور قبیلہ کے آخری سردار تھے۔ جب گدور اور ساجدی لسبیلہ آئے تھے۔ تو وہ رخشانی بلوچی بولتے تھے۔ جبکہ سنگھور مکرانی بلوچی بولتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ صرف گدور قبیلے کے لوگوں نے اپنی مادری زبان بلوچی کو خیرباد کہہ دیا۔ آج کل ان کی مادری زبان جدگالی ہے۔ جبکہ سنگھور قبیلے نے مکرانی بلوچی کو خیرباد کہہ کرکے رخشانی بلوچی بولنا شروع کردیا۔ ساجدی ازل سے اب تک اپنی مادری زبان یعنی رخشانی بلوچی بول رہے ہیں۔ (جاری ہے)
اختر بلوچ
good information
Sazeen Rashid Baloch
detailed history about our ancestors …enjoyed reading it .