|

وقتِ اشاعت :   September 16 – 2020

جب مچھ‘ کوہلو‘ سوئی گیس‘ سیندک اور ریکوڈک بلوچستان کی تقدیر بدل نہ سکے تو سی پیک بلوچستان کی تقدیر کیسے بدلے گا؟ سوشل میڈیا پر درج بالا جملہ نظروں کے سامنے سے گزرا جو یقیناً کسی دل جلے بلوچستانی نے تحریر کی ہوگی۔ اس تحریر کے پیچھے ملک خداداد پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کی تلخ یادیں وابستہ ہیں جن سے بلوچستان کے عوام گزرے ہیں اور اب بھی گزر رہے ہیں۔یہاں پر میں چند مثالیں رقم کررہا ہوں اس امید کے ساتھ نہیں کہ میری تحریر سے وفاقی حکومت کے رویے میں اچانک تبدیلی آئے گی اور وہ بلوچستان کے عوام کے لئے شہد اور دودھ کی نہریں بہا دے گی۔

نتیجہ وہی جن سے بلوچستان کے عوام کو اب تک بہلایا اور پھسلایا جاتا ہے اور جاتا رہے گا۔ اب موجودہ حکمرانوں یعنی وزیراعظم عمران خان کی جانب سے 12ستمبر2020کا بیان اخبار میں شہ سرخی سے شائع ہوا کہ ”اب توجہ بلوچستان کی ترقی پر“ ماضی میں صرف وعدے ہوئے ترقیاتی پروگرامز میں سب سے زیادہ فنڈ دینا ہماری بلوچستان سے وابستگی کا اظہار ہے۔وزیراعظم“یہ بات وزیراعظم نے ایک روزہ دورہ بلوچستان کے موقع پر صوبائی کابینہ کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے کہی جس میں کچھی کینال کی تعمیر کو صوبے کی ترقی کیلئے انتہائی ا ہم ہونے کی نوید سنائی گئی۔

یاد رہے کہ کچھی کینال کی تعمیر کیلئے ہر حکمران نے بلندو بانگ دعویٰ کیے جس پر اس حد تک عمل درآمد کیا گیا کہ پنجاب سے راجن پور،ڈیرہ غازی خان تک کینال اس حد تک تعمیر کرائی گئی جہاں با اثر مقتدر شخص کی وسیع اراضی موجود ہے، بلوچستان کے نام پر صرف ایک شخص کی وسیع اراضی کو پانی پہنچانا تھا،اخبارات میں درجنوں خبریں اب تک لگ چکی ہیں پھر ایک شخص نے سوشل میڈیا پر سوئی سے اس کینال کی تصاویر بھی شئیر کیں اور دکھایا کہ یہ کینال بلوچستان کی طرف آتے آتے جس طرح سے ناقص تعمیر کی گئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔یعنی پانی چھوڑنے کے ساتھ ہی اس کینال کی دیواریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں۔

مطلب کہ پانی کو بلوچستان لانا نہیں تھا،جو یہاں کے عوام کی سزا ہے جو حکومتیں یہاں کے عوام کو دیتی آرہی ہیں۔آج ستر سال گزر چکے، بد اعتمادی کی فضا دونوں جانب اس قدر ہے کہ لگتا ہے کہ بلوچستان پاکستان کی اکائی ہی نہیں۔ بلوچستان کے سیاستدانوں کے بلوچستان صوبائی اسمبلی‘ سینٹ اور قومی اسمبلی میں تقاریر میں تلخ لہجہ ہی اس بد اعتمادی کا واضح ثبوت ہے کہ جو بھی بلوچستانی جو حقیقی سیاستدان ہے (سرکاری سیاستدان نہیں) وہ بلوچستان کے مسائل پر روشنی ڈالے گا تو اس کے لہجے میں تلخی پائی جاتی ہے اس کے الفاظ کاٹ کھا جاتے ہیں لیکن ہم نے دیکھا کہ نتیجہ صفر کا صفر رہتا ہے۔

اس لیے کہ اسلام آبادبلوچستان کے مسائل حل کرنے میں کبھی سنجیدہ رہاہی نہیں تو مسائل کیوں کر حل ہوں گے،یہی بد اعتمادی کی فضا ہے کہ وفاق اور بلوچستان ایک پیج پر نظر نہیں آتے۔اس میں سندھ اور خیبر پختونخواہ صوبے بھی شامل ہیں جو بد قسمتی سے چھوٹے صوبے کہلائے جاتے ہیں لیکن سب سے مفلوک الحالی بلوچستان کے عوام کو دیکھنا پڑ رہی ہے جن کی ملکی سطح پر کوئی شنوائی نہیں۔ ہمارے عوامی نمائندے قومی اسمبلی اور سینٹ میں گلا پھاڑ پھاڑ کر اپنا دکھ سنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اسلام آباد میں بیٹھے حکمران ان نمائندوں کو سننے کو تیار نظر نہیں آتے۔

حالیہ دنوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل اور تحریک انصاف کے درمیان تلخیاں پیدا ہوئیں،بد اعتمادی اس حد تک بڑھی کہ سردار اختر مینگل کو حکومتی اتحاد سے الگ ہونا پڑا،یہ کہنا تھا سردار اختر مینگل کاکہ اسلام آباد میں جب تک وہ ”مائنڈ سیٹ“ اپنے آپ میں تبدیلی نہیں لاتا تب تک بلوچستان کے مسائل حل نہ ہوں گے۔سردارعطاء اللہ مینگل کی حکومت سے لے کر جان جمالی اور نواب بگٹی کی حکومت تک،ہمیں یاد ہے کہ کن حالات میں ان شخصیات نے محض چند سال بمشکل گزارے۔

سردار عطاء اللہ مینگل کی نوزائیدہ حکومت محض نو ماہ رہی‘ اسلام آباد کے ”مخصوص مائندسیٹ“ نے معاملات کو اس قدر پیچیدہ اور مشکل بنادیا کہ سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت پر ایک سازش کے تحت”عراق سے اسلحہ“ لینے تک کا الزام لگاکر اسے برخاست کیا گیا۔نواب بگٹی کی حکومت کی وفاق یعنی بے نظیر بھٹو سے اور گورنر کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو سے اختلافات رہے اوران حکومتوں کو بھی وقت سے پہلے چلتا کیا گیا یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے۔ پسند اور نا پسند کی بنیاد پر شخصیات کو خریدا اور فروخت کیا جاتا ہے،انتخابات کم اور بولیاں زیادہ کام دیتی ہیں۔

الہ دین نے ایک چراغ کے ذریعے ایک اکلوتے جن پر قابو پایا تھا، اب تو ان جنوں کی تعداد گننے میں نہیں آتی کہ کون سا جن کس کی طرف سے ہے، کس کے ”پے رول“ پر کام کرتا ہے۔یہاں پر میں وفاقی وزیر پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ اسدعمر کے”ڈائیلاگ“ جو کہ گزشتہ روز اخبارات کی زینت بنے، پر روشنی ڈالتا ہوں بقول ان کے کہ سی پیک گیم چینجر منصوبہ ہے،جنوبی بلوچستان و مکران کی ترقی ترجیح ہے، وزیراعظم کی ہدایت پر جنوبی بلوچستان کا دورہ کررہے ہیں،ماضی میں جنوبی بلوچستان کی تعمیر و ترقی کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے، اس کے علاوہ اور بھی یقین دہانیاں کرائیں گئیں۔

لیکن یقین کریں کہ اس کم بخت دل کو ان ”ڈائیلاگز“ پر یقین نہیں آتا کیونکہ سانپ کا ڈسا رسی سے ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے والی بات بلوچستان پر بھی لاگو نظر آتا ہے کہ بلوچستان کے عوام کو اب ان حکمرانوں پر اعتماد ہی نہیں رہا۔ جب حکومت سازی کا مرحلہ وفاق کو درپیش آتا ہے تو ”اسٹیبلشمنٹ“ اس کی راہ ہموار کرنے کیلئے صوبائی حکومتوں سے تمام مطالبات تسلیم کرانے کا معاہدہ طے کراتی ہے جب وفاق میں انکی مرضی کی حکومت تشکیل پاتی ہے تو پھر صوبوں خصوصاً بلوچستان سے وعدہ خلافیاں شروع کردی جاتی ہیں اور حالات کو ”پوائنٹ آف نو ریٹرن“ پر لے جا کر بلوچستان اور وفاق کے درمیان تلخیاں اور دوریاں پیدا کردی جاتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ یہ تلخیاں اور دوریاں اب ”پوائنٹ آف نو ریٹرن“ تک پہنچ چکی ہیں۔ وفاق صوبے کی حقیقی قوتوں پر اعتماد کرتی نظر نہیں آتی،یہی صورت حال حقیقی قوتوں کا ہے۔ ”عارضی بنیادوں“ پر جو حکومتیں تشکیل دی جاتی ہیں ان کی عوام میں کوئی پذیرائی نہیں ہوتی جو صوبے اور ملک کیلئے نیک شگون نہیں۔بہتر یہ ہے کہ بقول سردار اختر مینگل کہ اسلام آباد جب تک ”اپنا مائنڈ سیٹ”تبدیل نہیں کرتا حالات ہر آنے والے دن کے حساب سے بد سے بد تر ہوتے چلے جائیں گے جو ہمارے ملک اور صوبوں خصوصاً چھوٹے صوبوں کے لئے نیک شگون نہیں۔

پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو وسائل کی فراہمی میں کسی حد تک اضافہ کیا گیا لیکن اب این ایف سی ایوارڈ کے طلب کرنے میں نہ صرف تاخیر کی جارہی ہے جس سے صوبوں میں بد اعتمادی مزید بڑھ رہی ہے۔ 18ویں ترمیم کے خاتمے اور صدارتی نظام رائج کرنے کی باتیں تواتر کے ساتھ پھیلائی جارہی ہیں جس سے عوام میں شدید بے چینی پیدا ہورہی ہے جو لمحہ فکریہ ہے، وفاق کو چائیے کہ چھوٹے صوبوں خصوصاً بلوچستان کو اپنے ساتھ لے کر معاملات آگے بڑھائے تاکہ ملک میں انار کی کی صورت حال پیدا نہ ہو۔

چلتے چلتے یہ بات اچانک میرے ذہن میں آئی کہ خضدار کے راستے لاڑکانہ تا رتوڈیرو تک کی سڑک جو کہ بلوچستان کو براستہ سندھ، پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواہ سے ملانے کیلئے سب سے شارٹ کٹ راستہ ہے گزشتہ 29سالوں سے تعمیر کے مرحلے میں ہے کہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ملک بھرمیں بلوچستان کو چھوڑ کر موٹر ویز بنائے گئے جو بر وقت مکمل کیے گئے یہاں ایک سڑک 29سالوں سے مکمل نہیں ہورہی اس سے وفاق کی بلوچستان کے ساتھ محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔گزشتہ دنوں شدید بارشوں سے اس سڑک کو اس حد تک نقصان پہنچا کہ ہفتوں ٹریفک معطل ہوگئی۔

اللہ بھلا کرے سینیٹر آغا شاہزیب درانی کا جنہوں نے مداخلت کرکے چئیرمین این ایچ اے کو اس اہم شاہراہ کے بارے میں آگاہ کیا جنہوں نے بنفیس خود چئیرمین کی حیثیت سے سڑک کا دورہ کرکے ناقص میٹریل کے استعمال کا نوٹس لیتے ہوئے سڑک کی مرمت کرکے اسے چھوٹی گاڑیوں کے لئے کھولنے کے احکامات جاری کیے۔ یہاں اس سڑک کا ذکر اس لیے ضروری سمجھا کہ کیا دیگر صوبوں میں سڑکوں کی تعمیر میں اس قدر تاخیر کی جاتی ہے جس طرح بلوچستان کے ساتھ ظلم روا رکھا جاتا ہے؟ 29سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے۔

اس پر تو دل ماتم کرنے کو چاہتا ہے کہ کس طرح ایک سینیٹر کی مداخلت سے ایک سڑک کی مرمت ہوتی ہے اس رویے سے آج ہر بلوچستانی نہ صرف پریشان ہے بلکہ شاکی ہے اس سلسلے کو اب وزیراعظم عمران خان کو ختم کرنا چاہیے جنہوں نے عوام سے بڑے بلندو بانگ دعویٰ کررکھے ہیں عوام کی نظر یں ان پر لگی ہوئی ہیں۔