محکوم اور مظلوم قوموں کی تحریکوں میں ایسے افراد کی قربانیوں اورجہد مسلسل کو صدیوں تک فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے جو ہمہ وقت اپنے نظریاتی سوچ اور فکرخیال کی وجہ سے قومی تحریکوں میں فعال کردار ادا کرتے ہیں اور تمام تر اذیتوں مشکلات تکالیف مسائل کا خندہ پیشانی اور مستقبل مزاجی اور ثابت قدمی کے ساتھ وقت او ر حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے متعین کردہ راستے سیاست نظریے سے ہٹنے اور سوچ میں تبدیلی لانے اور اصولوں پرسودا بازی کرنے کا تصور تک نہیں کرتے اوردنیا کی کوئی طاقت ان کے پر عزم خیالات وافکار نظریات اور سیاست کے راستے میں کوئی روکاٹ پیدا نہیں کرسکتی۔
بلوچستان کی قومی تحریک شہداء کے قربانیوں سے بری پڑی ہیں جنہوں نے ہمیشہ مشکل اور سخت وقتوں میں اپنے مادر وطن کی مقدس مٹی کی حفاظت قومی تشخص بقاء سلامتی تہذیب و تمدن قومی ننگ و ناموس اور مثبت روایات کی بحالی ساحل وسائل پر اپنے دست رست مکمل حق احاکمیت واحق و اختیارکے حصول کیلئے اپنے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے قومی تحریکات کیلئے ہمیشہ امر ہوگئے۔جنہوں نے قومی کاز اور اپنے آنے والے نسلوں کی روشن مستقبل کیلئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور تاریخ میں نام پیدا کیا ان رہنماؤں میں سے ایک نام میر نورالدین مینگل کا ہے۔
جنہیں 13اکتوبر 2010کو صبح بارہ بجے قلات میں نامعلوم افراد نے گھر کے سامنے فائرنگ کرکے شہید کیا وہ بی این پی کے مرکزی کمیٹی کے رکن اورایک معزز سیاسی قبائلی اور اعلیٰ تعلیمی یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ سیاسی تعلیمی اور قبائلی حوالے سے ان کے علاقے میں قومی خدمات ناقابل فراموش ہیں علاقے کا ہر بچہ بچہ اور ذی شعور عوام بخوبی آگاہ ہیں۔ شہیدمیر نور الدین خان مینگل 1952کو بلوچستان کے تاریخی شہر قلات میں پیدا ہوئے وہ میر لعل بخش مینگل کے فرزند تھے انہوں نے ابتدائی تعلیم قلات سے حاصل کی۔
میٹرک نوشکی سے ایف ایس سی سائنس کالج کوئٹہ سے اور 1970کو لاہور سے مائننگ میں انجینئرنگ کی اپنے سیاسی جدوجہد کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کی پلیٹ فارم سے کیا بی ایس او کے مرکزی وائس چیئرمین کے عہدے پر فائز رہے طالب علمی کے دوران پنجاب میں بی ایس او کے16 یونٹوں کو نہایت ہی فعال اور متحرک کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد میرغوث بزنجو مرحوم کی قیادت میں پاکستان نیشنل پارٹی(پی این پی)میں شمولیت اختیار کی۔کیونکہ نیپ پر پابندی عائد ہوچکی تھی محکوم قوموں کو اپنے قومی سیاسی جمہوری اور آئینی حقوق کیلئے جدوجہد کرنے کیلئے کوئی اورسیاسی پلیٹ فارم دستیاب نہیں تھا۔
وہ پی این پی کے مرکزی نائب صدر اور مرکزی کمیٹی کے عہدوں پر فائز رہے۔پارلیمانی جدوجہد کے سلسلے میں وہ پہلی مرتبہ 1988کو پی این پی کے پلیٹ فارم سے قلات کے صوبائی اسبملی کی نشست پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور بعد میں (بی این وائی ایم)کے امیدوار پرنس آغا موسیٰ جان بلوچ کے حق میں الیکشن سے دستبردار ہوگئے 1990کے الیکشن میں پی این پی کی طرف سے قلات کے صوبائی حلقے سے الیکشن میں حصہ لیا مگر کامیابی حاصل نہیں کی1996ء کو جب بی این ایم (مینگل) پی این پی(بزنجو)اور پی این پی (حکیم لہڑی) کا انضمام ہونے کو جارہا تھا۔
ان پارٹیوں کوانضمام کرانے میں شہید میر نور الدین مینگل نے کلیدی کردار ادا کیا۔جب ان جماعتوں کے درمیان انضمام ہوا تو میر نور الدین مینگل عبوری مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر نامزد ہوئے اور وہ زندگی کے آخرایام تک بی این پی کے مرکزی کمیٹی کے عہدے پر فائز رہے۔شہید میر نور الدین خان مینگل کا شمار پارٹی کے تھنک ٹینک رہنماؤں میں سے ہوتا تھا۔ وہ بی این پی اور بلوچ قومی تحریک کا ایک اہم سیاسی فگر تھے بے حد سلجھے ہوئے خوبصورت شخصیت انسان کے مالک تھے۔ ملکی اور بین الاقوامی سیاس صورتحال معاشی معاشرتی اور آنے والے تبدیلیوں سے نمٹنے پر مکمل علم پر عبوراور گرفت رکھتے تھے۔
جب بھی پارٹی کی مرکزی کمیٹی (سی سی)کا اجلاس یا کوئی اہم میٹنگ ہوتا تو شہید میر نور الدین خان مینگل اپنے خدائے داد صلاحیتوں کی وجہ سے گھنٹوں گھنٹوں تک زیر بحث ایجنڈوں پر تفصیل اور دلائل کے ساتھ سیر حاصل گفتگوکرتے ہوئے دوستوں کی توجہ کا مرکوز ہوتے۔ جب سابق آمر پرویز مشرف کے دور حکومت میں بی این پی نے بلوچستان میں ہونے والے مظالم بلوچ سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے بلوچستان میں پانچویں آپریشن،بلوچستان کے قدآورسیاسی و قبائلی رہنماء شہید وطن نواب اکبر خان بگٹی سمیت ہزاروں بلوچ فرزندوں کے شہادتوں سیاسی کارکنوں کے ٹارگٹ کلنگ۔
ماورائے آئین و عدالتی قتل و گرفتاریوں اور سنگین انسانی حقوق کے پامالیوں کے خلاف 2006ء میں یکم نومبر سے 31دسمبر تک گوادر سے کوئٹہ تک تاریخی پیدل لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ تو آمر پرویز کے (رجیم)بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر بلوچ وطن پر بلوچی راج انقلاب زندہ باد کے اس سیاسی تحریک کا سامنا نہ کرنے کی وجہ سے بی این پی کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کردیا صوبے بھر میں بی این پی کے مرکزی قائد سردار اختر جان مینگل، سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی سمیت پارٹی کے مرکزی کابینہ مرکزی کمیٹی کے اراکین ضلعی تحصیل وارڈ عہدیداروں اور پارٹی کے سرگرم دوستوں کو گرفتار کرکے پابند سلاسل کردیا۔
اور نیپ کے طرز پر ایک بار پھر بی این پی کو عملاً سیاسی جمہوری جدوجہد کرنے پر پابندی لگانے کا ایک طرح کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ پارٹی کے عہدیداروں کو گرفتارکرکے کراچی گوادر ژوب مچھ لورالائی گڈانی، کوئٹہ اور صوبے کے دیگر جیلوں میں شفٹ کیا گیا ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے نیپ کے بعد ایک بار پھر بی این پی کو سیاسی اور جمہوری جدوجہد سے باہر کرنے کا عہد کرلیا ہے۔ بلوچستان بھر میں ایک بار پھر پارٹی کے نہتے سیاسی اور نظریاتی کارکنوں کی گھروں پر رات کی تاریکی میں پکڑ دھکڑچھاپوں اور گرفتاریوں کا نہ روکنے والا سلسلہ شدو مد کے ساتھ جاری تھا۔
اور اس دوران بی این پی کے سیاسی نظریاتی کارکن ان جاری ناروا پالیسیوں کے خلاف سراپااحتجاج کیلئے صوبے بھرکے ضلعی ہیڈکوارٹر کے پریس کلبوں کے سامنے مظاہروں کیلئے جمع ہونا شروع ہوتے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے اور فورسز پارٹی کارکنوں کو محاصرے میں لیکر خوف وہراس اور تشدد سے باز نہیں آتے تاکہ ظلم و ستم خوف وہراس کے ذریعے سے بلوچ قومی حقوق کے سیاسی تحریک سے وابستہ بی این پی کے سیاسی و نظریاتی سوچ سے لیس کارکنوں کو قومی تحریک کی جدوجہد سے دستبردار کرایا جاسکے اس دوران پارٹی کے چند دوست جو گرفتاریوں سے بچے ہوئے تھے۔
انہوں نے میر نور الدین مینگل کو پارٹی کا قائمقام سربراہ مقرر کیا۔شہید میر نور الدین مینگل نے پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے خوف و ہراس کے ماحول کو ختم کرنے اور سیاسی جمود کو تھوڑ نے کیلئے سیاسی میدان میں سرگرمیوں میں تیزی لائی اور اس دوران جب وہ 3جنوری 2007ء میں ممتاز بزرگ بلوچ قوم دوست رہبر سردار عطاء اللہ خان مینگل سے ملنے کیلئے قلات سے وڈھ جارہے تھے۔ تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے میر نور الدین مینگل اور ان کے ساتھ پارٹی کے مرکزی رہنماء ملک نصیر احمد شاہوانی،حاجی فاروق شاہوانی ودیگر ساتھیوں کو محاصرے میں لیکر خضدار کے مقام پر گرفتار کرکے شہید میر نورالدین مینگل کو 3روز تک خضدار کے سٹی تھانے میں رکھا اور بعد میں کوئٹہ کے بدنام زمانہ کرائم برانچ تھانہ شفٹ کرکے طرح طرح کی اذیتیں دی۔
تاکہ وہ بی این پی کو خیر باد کہہ دے یاسیاسی جدوجہد سے کنارہ کشی اختیارکرکے خاموشی اختیار کریں مگر اذیتیں اور شدید سردی کے باوجود ریاستی اذیتوں کا جوان مردی سے مقابلہ کرتے ہوئے تمام تر ذہنی جسمانی صعبوتوں کے پروا کئے بغیر قوم اور وطن کی مہر وفا اور وابستگی جدوجہد کا خندہ پیشانی ثابت قدمی اور مستقبل مزاجی چلتن اور مہر داد پہاڑ جیسے پر عزم انسان شہید میر نورالدین مینگل کو آمر قوتیں بلوچ قومی تحریک اور بی این پی سے جدا کرنے بکنے اور خاموش کرانے کی اپنے عزائم میں مکمل طور پر ناکام رہے تو شہید میر نور الدین خان مینگل کو انگریز استمار کے بدنام زمانہ 16 اور3 ایم پی او ایکٹ کے تحت غیر سیاسی اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں۔
کے ذریعے سے پابند سلاسل کرکے خضدار جیل شفٹ کیا جوکہ وہاں پہلے ہی سے بی این پی خضدار سوراب قلات گدرپارٹی کے کثیر تعداد رہنماء اور کارکن مقید تھے اسیری کے دوران شہید میر نور الدین خان مینگل نے اپنے مدبرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خضدار ڈسٹرکٹ جیل کو ایک سیاسی تربیتی ادارے میں تبدیل کرکے پارٹی کے کارکنوں کو معروضی حالات اور واقعات بلوچ قوم اور بلوچستان کو درپیش سیاسی صورتحال پر سیاسی لیکچر دینے کا سلسلہ شروع کیا۔کیونکہ سیاسی کارکنوں کیلئے جیل و زندان کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں اور وہ اسے اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔
میر نور الدین مینگل کو دور طالب علمی سے اپنے وطن قومی حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے پر گہری لگن اور شوق تھا میر نور الدین مینگل کو ایک ایسے وقت میں شہید کیا گیا جب پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل شہید گل زمین حبیب جالب بلوچ کی شہادت کو ابھی تک تین مہینے بھی نہیں گزرے تھے بلوچستان کے عوام اور پارٹی کارکن اپنے عظیم سیاسی رہنماء کی جدائی کے غم میں نڈھال اور پارٹی سوگ منانے میں مصروف عمل تھے کہ ایک ایسے وقت میں پارٹی کے دوسرے سرکردہ رہنماء میر نور الدین مینگل کو شہید کیا گیا تاریخ گواہ ہے کہ قومیں قتل و غارت گری ظلم و ستم قید و بند کی صعبوتوں سے ہرگز ختم نہیں ہوتیں۔
بلکہ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی قومی تحریک کیلئے جدوجہد کی پاداش میں شہادتوں اذیتوں کا سامنا کرنے تکالیف کی رد عمل سے قومی تحریکوں کو تقویت ملے گی شہید میر نور الدین مینگل جیسے نڈر بلوچ فرزند قومی کاز کیلئے صدیوں میں پیدا نہیں ہونگے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ گذشتہ 21سالوں سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بی این پی کے کارکنوں کو سیاسی اور جمہوری قومی تحریک کی جدوجہد کے راستے سے ہٹانے کیلئے قتل و غارت گری کا نشانہ بنارہے ہیں کیونکہ بزرگ قوم وطن دوست وبی این پی کے رہبر عظیم بلوچ رہنماء سردار عطاء اللہ خان مینگل گذشتہ کئی عشروں سے بلوچستان کی۔
قومی مسائل جن میں گوادرمنصوبہ سی پیک ساحل وسائل پر بلوچوں کی حق حاکمیت کی حصول افغان مہاجرین کی انخلاء مردم شماری جاری آپریشن، لاپتہ بلوچ فرزندوں کی بازیابی،مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی،سیاسی کارکنوں کی قتل و غارت گری، ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں، سیندھک ریکوڈک دودر، چمالنگ گڈانی پاور پروجیکٹس، اوچ پاور پروجیکٹ، سوئی سدرن گیس ،چھاونیوں اور دیگر امور پر جو سیاسی اور جمہوری وسخت گیر اصولی موقف اپنایا ہوا ہے اسی کے نتیجے میں آج پارٹی کو دیوار سے لگانے اور پارٹی کی عوامی تائید و حمایت حق رائے دہی کو بلا جواز تسلیم نہیں کیا جارہا ہے۔
جس کے نتیجے میں بلوچستان کا جو مسئلہ وہ سیاسی ہے اور بحران کا شکار ہے۔ اور بااختیار قوتوں کی فہرست میں اس لئے بی این پی گڈ بکس میں شامل نہیں ہے جو اصولوں پر سودا بازی کرنے کی سیاست اور مصلحت پسندی پر یقین نہیں رکھتے ہیں اور 2013ء کے عام انتخابات میں بی این پی کی عوامی مینڈیٹ پر شب خون مارا گیا پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل کی وڈھ کی آبائی نشست لیڈ جوکہ17 ہزاروٹروں پر مشتمل تھی 15دن تک بلا جواز غیر آئینی غیر جمہوری انداز میں روکا رکھاگیا اور صوبے کے دیگر علاقوں میں پارٹی کے کامیاب امیدواروں کو ناکامی میں تبدیل کیا گیا۔
تاکہ پارٹی اپنے اصولی موقف سے ہٹ کر یہاں پر شروع ہونے والے میگا منصوبوں پرلچک پیدا کریں۔اوکچھ لو اور کچھ دوکے فارمولے کو اپنائے۔اس کے مقابلے میں اقتدار ایسے لوگوں اور پارٹیوں کے حوالے کی گئی جنہوں نے قومی مفادات کی بجائے اپنے گروہی ذاتی مفادات پر مبنی مرکزی اور صوبوں حکومتوں میں وزاراتیں اور مراعاتوں کی اصول پر مختص کرکے معاہدے کئے اور اقتدار پربراجمان رہے۔بلوچستان کے قیمتی اثاثوں ساحل وسائل کو ریوڑیوں کی قیمتوں میں فروخت کیا گیا میرٹ انصاف قانون تعلیم صحت و بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات سے بلوچستانی عوام آج بھی محروم ہے۔
جس کی واضح مثال اقوام متحدہ کی جانب سے 2018ء کے جاری کردہ رپورٹ میں بلوچستانی عوام اور بلوچستان کو دنیا کا سب سے پسماندہ غربت زدہ خطہ قرار دیا۔جبکہ قدرتی وسائل کے حوالے سے دنیا کا امیر ترین خطہ قراردیا گیا۔ یہ اکسیویں صدی کے دور میں حکمرانوں کا سب سے بڑا ناانصافی عمل ہے کہ دنیا کے امیر ترین سرزمین کے حقیقی وارث غریب ترین لوگوں کی فہرست میں شمارہوتے ہیں جوکہ ناکام طرز حکمرانی اور بدترین استحصال کی واضح ثبوت ہے۔شہید گل زمین حبیب جالب بلوچ، شہید میر نور الدین مینگل، شہیدمیر اسلم جان گچگی۔
شہید نواب امان اللہ خان زہری،ان کے فرزند شہید نوابزادہ ریاض احمد زہری ان کے کمسن نواسے میر مردان زہری،شہید آغا ورنا نوروز بلوچ،شہید سلام ایڈووکیٹ، شہید میر جمعہ خان رئیسانی، شہید علی اکبر موسیانی، شہید نصیر جان لانگو، شہید ملک نوید دہوار،شہید اسماء سلام،شہید نواب الدین نیچاری،شہید حاجی لیاقت مینگل، شہید ملااحمد یوسف بلوچ،شہید زاہدبلوچ، شہید حاجی عطاء محمد زئی،شہید مراد جان گچگی،شہید زبیر جان گچکی،شہید خان محمد غلامانی،شہید ڈاکٹر صالح بلوچ، شہید شہناز بلوچ،شہید علی اکبر موسیانی، شہید ناصر جان بلوچ،شہید امتیاز حسین بلوچ،شہید ظریف دہوار، شہید سمیر جان بلوچ،شہید واجہ رحیم بلوچ، شہید واجہ عید محمد،شہید عبدالعزیز گمشادزئی،شہید عبدالناصر،شہید خان جان شائی زئی،شہید ماسٹر عبدالطیف شاہوانی۔
شہید سعید احمد بارانزئی،شہید عبدالحئی محمدحسنی، شہید ثناء اللہ مردوئی،شہید اللہ بخش مردوئی،شہید وحید بلوچ،شہید سلمان،شہید حافظ عبدالقادر مینگل،شہید عبید اللہ گرزگی،شہید صحافی عبدالحق بلوچ،شہید جاوید احمد بارانزئی،شہید محمد گل محمد زئی،شہید حاجی ہدایت اللہ لہڑی،شہید محمدحسن،شہید فتح خاتون،رئیس عبدالقدوس مینگل،شہید رضامحمد محمدزئی،شہید عبدالکریم مینگل،شہید میر عبدالرحمان دینازئی، شہید مشرف زہری،شہید سکندر گورشانی سے لیکر اب تک پارٹی کے 95کے قریب دوستوں کو شہید کیا گیا جبکہ بہت سے پارٹی کے کارکن لاپتہ ہیں پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کے گھر وڈھ پر راکٹ حملہ کرایا گیا پارٹی نے شہید نواب اکبر خان بگٹی کے شہادت کے خلاف احتجاجاً 2006ء کو اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر بلوچستان کے سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ دنیا کے توجہ مبذول کرانے میں کامیاب رہے۔
بی این پی نے ہمیشہ بلوچستان میں ہونے والے ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں اور سیاسی کارکنوں کو غائب کرنے سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ چادر و چار دیواری کی پامالی سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت بلوچستان میں بلوچ عوام کے مرضی و منشاء کوشامل کئے ہوئے بغیر ایسے نام نہاد منصوبوں اور پروجیکٹس کی کبھی بھی حمایت نہیں کی جوکہ ہماری تہذیب و تمدن تشخص بقاء سلامتی کے خاتمے کا سبب بنے گے بی این پی نے سیاسی جمہوری انداز میں بلوچستان اور بلوچ قوم کے قومی اجتماعی معاشی اور معاشرتی سیاسی حقوق کے استحصال کے خلاف ہمیشہ قربانیاں دی اور ہر جگہ پر سیاسی جلسے جلسوں احتجاجی مظاہروں کے ذریعے یہاں پر ہونے والے ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے۔
اہلیان بلوچستان ساتھ ہونے والے زیادتیوں پر کبھی بھی خاموشی اختیار نہیں کی۔پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل نے جنوری 2013ء کودوسالہ جلا وطنی ختم کرکے دوبئی سے اسلام آباد آکر سپریم کورٹ میں جوچھ نکات پیش کیا۔یہ وہ ایشوز ہیں جو بلوچستانی عوام کوگذشتہ70سالوں سے درپیش ہیں بی این پی کی جڑیں عوام میں مضبوط ہیں اور پارٹی نے بہتر انداز میں بلوچ عوام کے استحصال سیاسی معاشی معاشرتی محکومیت اور پسماندگی کو ملکی سطح پر متحرف کرنے میں سرگرم عمل رہے ہیں۔اسی حوالے سے 2018ء عام انتخابات میں بلوچستان کے باشعور عوام نے پارٹی کی اصولی موقف قربانیوں جدوجہد پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنے قیمتی ووٹوں سے بھاری اکثریت سے کامیاب کراکے اپنا حقیقی نمائندہ جماعت کا درجہ دیا۔
اور پارٹی نے یہاں کے عوام کی حقوق کی اور ارمانوں احساس اور جذبات کی حقیقی معنوں میں عکاسی کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت میں شراکت اقتدار کی بجائے وزارتیں مراعاتیں اور اقتدار کو رد کیا یہاں کے عوام کی اجتماعی قومی مفادات اور سرزمین کی دفاع اور تحفظ کو اولیت دیکر کرمندرجہ ذیل 6نکات جو کہ بلوچستان کے دیرینہ سیاسی ایشوز ہیں ایک ڈرافٹ کی شکل میں بی این پی اور پی ٹی آئی کے مرکزی قائدین نے ایک معائدے پر دستخط کیا جن میں
1:ہزاروں بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی
2:گوادر میں بلوچوں کو اقلیت میں بدلنے ڈیموگرافک تبدیلی کو روکنے کیلئے قانون سازی
3: بلوچستان کے ساحل وسائل قدرتی دولت پر واحق و اختیارتسلیم کرنا
4: بلوچستان کے کوٹے پر وفاق میں ملازمتوں پر صوبے کی 6فیصد کوٹے پر عملدرآمد
5:لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی باعزت انخلاء کو یقینی بنایا جائے۔
6:صحت تعلیم ترقی و خوشحالی کیلئے بلوچستان کیلئے خصوصی گرانٹ۔بلوچستان میں پانی کی بڑتی ہوئی بحران پر قابوپانے کیلئے ڈیمز کا قیام۔
لیکن رواں سال کے دوران بی این پی کے نہتے وسرکردہ کارکنوں کے ساتھ مظالم کا سلسلہ آج بھی جاری ہے پنجگور میں پارٹی کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری میر نذیر احمد بلوچ کے گھر پر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی بلا جواز چھاپہ چادر اور چار دیواری کی پامالی جوکہ 2نومبر 2018ء کو تحصیل تمبو نصیر آباد میں بی این پی کے ممبر اور ممتاز کرکٹر رفیق عمرانی کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے سے قتل و غارت گری کا نشانہ بنایاگیا13نومبر 2018ء کو نصیر آباد کے ریڈزون میں واقعہ بی این پی کے ضلعی ڈپٹی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر شاہ نواز مینگل کے بڑے بھائی اور سندھ بلوچستان رائس ملز کے ممتاز تاجر حاجی محمد نواز مینگل کو اغواہ کرکے کڈکوچہ کے علاقے میں ان کی تشدد زدہ اور بندھی ہوئی لاش برآمد ہوئی۔
15جنوری 2019ء کو مستونگ میں بی این پی ڈسٹرکٹ مستونگ کے ضلعی سیکرٹری ضلعی ہیومن رائٹس سیکرٹری حاجی نظر محمد ابابکی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوئے ۔ 16اور 17اگست 2019ء کے درمیانی شب رات 1بجے کو زہری کے علاقے بلبل میں شہید نواب نوروز خان کے فرزند اور پارٹی کے سرکردہ رہنماء نواب امان اللہ خان زہری ان کے کمسن پوتے میر مردان خان زہری دوساتھیوں سکندر گورشانی اور مشرف زہری کو گھات پر بیٹھے ہوئے چاروں طرف مسلح افراد نے فائرنگ کرکے قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا جب وہ پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر اور سابق ضلعی ناظم خضدار سردار نصیر احمد موسیانی کے خالہ کے انتقال کی تدفین نماز جنازہ کے رسم کے ادائیگی کے بعد اپنے اہل خانہ جن کے بچے اور خواتین بھی شامل تھے واپس اپنے آبائی علاقہ نورگامہ کی طرف آرہے تھے۔
20ستمبر 2019ء کو وڈھ میں بی این پی کے ایک فعال ممبر ڈاکٹر کریم کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا گیا۔ان واقعات میں ملوث قاتلوں اور حملہ آوروں کو گرفتار نہیں کیاجارہا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہر دور میں بی این پی کے نہتے وسرکردہ رہنماؤں کو غیر جمہوری قوتیں اور ان کے گماشتیں راستے سے ہٹانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں تاکہ بی این پی کی بلوچستان کی قومی سیاسی جمہوری جدوجہد میں مضبوط گرفت پذیرائی عوامی تائید و حمایت کو خوف و ہراس قتل و غارت گری جیسے منفی ہتھکنڈوں کے ذریعے سے ناکام بنایا جاسکے۔ کیونکہ پارٹی کی جدوجہد سیاست کا محور ومقصد بلوچ قوم کی خدمت اور بلوچستانی عوام کے قومی مجموعی اجتماعی مفادات اور جغرافیائی کی حفاظت کرنا ہے۔
اس سے پہلے بلوچستان کے نام نہاد قوم وطن دوست جماعتوں نے اپنے ذاتی گروہی مفادات اقتدار وزارتوں اور کمیشن کی خاطر مرکز اور صوبے میں شرکت اقتدار کیلئے عوام کے ارمانوں کے تکمیل کے برخلاف معاہدے کئے اور انہوں نے صوبے کے قومی اجتماعی مفادات پر مکمل طور پر خاموشی اختیار کی۔جبکہ بی این پی اور سردار اختر جان مینگل نے اجتماعی قومی مفادات کو اولیت دیکر چھ نکات پیش کئے۔یہ عمل حقیقی قوم وطن دوست اکابرین جماعتوں اور غیر حقیقی جماعتوں اور اکابرین میں فرق اور تضاد کو واضح کرتا ہے۔ جس طرح جنوبی افریقہ کے عظیم سیاسی رہنماء نیلسن منڈیلا کہتا ہے کہ لیڈر اور سیاست دان میں فرق ہوتا ہے۔
سیاست دان اآنے والے لیکشن کے بارے میں سوچتا ہے۔اور لیڈر اپنے آنے والے مستقبل اور ملت کے بارے میں سوچتا ہے۔ شہید میر نور الدین مینگل جیسے عظیم ہستی کو شہید کرکے جسمانی طور پر بی این پی اور بلوچ قوم کو کمزور کرنے کی ضرور کوشش کی ہو یقینا وہ ایک بہادر انسان تھے ان کی شہادت پر اہلیان بلوچستان اور بی این پی کے کارکنوں کو فخر ہے کہ انہوں نے قومی تحریک کیلئے اپنی جان کی قربانی دیکر منزل کو اور قریب کردیا جنہوں نے تمام تر مراعات مفادات قوم وطن دشمنی ضمیر فروشی مفادت پرستی کو رد کرتے ہوئے سخت راہوں بھوک افلاس گرمی سردی اور کٹھن راہوں پر چلتے ہوئے قومی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔
جوکہ ہر محب وطن انسان کا یہ خوائش ہوتا کہ وہ اپنے قوم اور مٹی کا قرض ادا کریں،شہید میر نور الدین مینگل اور دیگر شہداء کی قربانیوں کو عملی جامعہ پہنانے اور اپنے قومی ہیروز کے نقش قدم پر چلنے کا بہترین طریقہ ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی خاطرہر قسم کی مصلحت پسندی،دروغ گوئی مفادت پرستی موقع پرستی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے طرز انداز کی رویہ اور سوچ کو ترک کرکے آنے والے تبدیلیوں اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے قومی تحریک کو تنظیمی طور پر دور جدید کے خطوط پر استوار سینٹفک بنیادوں پرمضبوط و منظم کرکے قومی تحریک میں ایمانداری مخلصی اور سچائی سے اپنا عملی کردار ادا کرنا ہوگا۔