|

وقتِ اشاعت :   December 22 – 2014

تحریک انصاف نے جمعہ کے دن کراچی کو مکمل طور پر بند کردیا۔ سڑکوں کو سنسان کردیا۔ ٹریفک نہ ہونے کے برابر رہی۔ دکانیں بند اور سرکاری دفاتر میں حاضری کم رہی۔ ٹرانسپورٹ بند اور عام شہریوں نے بھی دن اپنے اپنے گھروں میں گزارا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے کراچی کے 29مقامات پر دھرنے دیئے، احتجاج کیا۔ ٹائر جلائے۔ سڑکوں کو ٹریفک کے لئے بند کیا۔ پورا دن تحریک کے کارکن ہلڑ بازی کرتے رہے۔ تحریک انصاف کا حسب معمول ٹی وی چینل پر سارا دن قبضہ رہا۔ تمام ٹی وی چینلزنے احتجاج کو براہ راست نشر کیا۔ عمران خان مختصر وقت کے لئے کراچی آئے۔ تقاریر کیں اور واپس چلے گئے۔ کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کا بڑی بڑی شاہراہوں اور چوراہوں پر قبضہ رہا۔ پولیس نے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی۔کسی بھی علاقے میں سڑکوں کو عام ٹریفک کیلئے کھولنے کی کوشش نہیں کی۔ پولیس پورا دن چوکس ضرور رہی مگر پس پردہ رہی یا آنکھوں سے اوجھل رہی۔ اس لئے کسی قسم کاکوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ عموماً دن پرامن گزرگیا۔ دوسری جانب معیشت کو زبردست نقصان ہوا۔سارا کاروباربند، اجناس اور اشیاء کی ترسیل سارے دن معطل رہی۔ لاکھوں گاڑیاں اور ٹرک سڑکوں پر نہیںآئے۔حکومت کو جمعہ کے دن کوئی ٹیکس وصول نہیں ہوا، اگر ٹیکس وصول ہوا تو وہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ سب سے زیادہ پریشان روز مرہ کی مزدوری سے روزی کمانے والے لوگ تھے، ریڑھی بان تھے جو سارا دن کوئی کاروبار نہ کرسکے۔ بلکہ جمعہ کے دن ان کے گھروں میں چولہے نہیں جلے۔ اس سے حکومت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ ایک دن کراچی بند ہوا تو کیا ہوا۔ اس سے حکومت پر کسی قسم کا دباؤ نہیں بڑھا۔البتہ عمران خان کی انا کو ضرور تسکین پہنچا کہ کراچی کومکمل دھونس اور دھمکی کے ذریعے بند کیا۔اہم چوراہوں اور شاہراہوں پر قبضہ کرکے شہر کو بند کردیا گیا اور زندگی کو مفلوج کردیا گیا۔ کل اگر لاہور بھی بند ہوگا تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لوگ یہ سب ہڑتالیں اور احتجاج بھول جائیں گے اور عمران خان اپنے اصلی مقام پر کھڑے نظر آئیں گے۔ اس سے کسی قسم کی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں بلکہ یہ سب کچھ عمران خان کی انا کو تسکین پہنچانے کے لئے ہے۔اگر مذاکرات شروع ہوئے تو اس میں جوڈیشل کمیشن بنے گا۔ جو واضح کرے گا کہ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی یا نہیں ہوئی۔ عمران خان نے نواز شریف سے استعفیٰ طلب کرنا بند کردیا۔ یعنی دن میں سنہرے خواب دیکھنا بند کردیا کہ وہ نواز شریف کوہٹاکر خود وزیراعظم بن جائیں گے۔ انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے استعفیٰ نہیں دیا جس سے اس کی پارٹی کونقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا کیونکہ ان میں اکثر لوگ پہلی بار اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں اور مہینوں بعد ہی عمران خان نے ان سے استعفیٰ دلوایا اور اپنی ہی پارٹی میں بحران کو خود پیدا کیا۔اس لئے ان کی نشستیں برقرار ہیں۔ اگلے چند ہفتوں میں وہ سب اپنی نشستوں پر دوبارہ بیٹھ جائیں گے۔