بعض سابق فوجی جرنیل اور مقتدرہ کے حامی صحافی خصوصاً جن کا تعلق دائیں بازو کی سیاست سے ہے وہ اپنا بغض اور کینہ خصوصاً بلوچوں کے خلاف نہیں چھپا سکتے اور آئے دن بلوچستان کی حقوق اور سیاسی جدوجہد کو بھی دہشت گردی کے ہم پلہ گردانتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کو دہشت گرد ثابت کر کے ان کا مکمل صفایا کیا جائے۔ آئے دن وہ ٹی وی پر یہ بیانات دیتے ہیں اور صحافی حضرات اپنے کالموں کے ذریعے حکومت اور حکومتی اداروں پر یہ دباؤ بڑھاتے رہتے ہیں کہ بلوچ حقوق کا مطالبہ دہشت گردی ہے۔ بنیادی طور پر یہ راسخ العقیدہ لوگ پاکستان کو ایک وفاقی اور جمہوری ملک تسلیم ہی نہیں کرتے جس میں مختلف نسل،زبان،قوم کے لوگ آباد ہیں جنہوں نے اپنی مرضی سے پاکستان کو وجود میں لایا اور ایک وفاق بنایا اورا ب اس میں کوئی وفاقی اکائی وفاق کا غلام نہیں ہے بلکہ ایک سیاسی اکائی ہے ۔اس کی اپنی اسمبلی ہے،حکومت ہے، شناخت ہے، اپنے قوانین ہیں جو کسی طرح سے بھی وفاق کے تابع نہیں ہیں چنانچہ اس نے اپنے کچھ اختیارات وفاق کے قیام کے وقت وفاق کو تفویض کئے ہیں اس لئے کہ وفاق اپنے اختیارات کا استعمال کرے۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے ،نواب اکبر بگٹی شہید، نواب خیر بخش مری،سردار عطاء اللہ مینگل ،میر غوث بخش بزنجو سب کے سب وزیر ،گورنر،قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان رہے اور سب نے پاکستان کے قوانین کے تحت حلف بھی اٹھایا تھا۔ اس کے باوجود تمام تمام لوگ پاکستان کے ریاست کے اندر رہتے ہوئے سیاسی جدوجہد کرتے رہے بلکہ مسلح جدوجہد کرتے رہے۔ چونکہ مقتدر ہ طاقت کے غرور میں سیاست کی زبان سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی بلوچستان میں آئے دن فوجی کارروائیوں کا حکم کس نے دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس میں ایوب خان،جنرل ضیاء الحق، ذوالفقار علی بھٹو،جنرل پرویز مشرف جیسے افراد شامل تھے جو صرف اور صرف طاقت کی زبان سمجھتے تھے اور طاقت کے نشے میں مدہوش تھے۔ اگر یہ تمام حضرات بلوچوں کے خلاف اعلان جنگ نہ کرتے تو بلوچ کبھی بھی پاکستان کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے اور نہ مسلح افراد پہاڑوں کا رخ کرتے کیونکہ شہری علاقوں میں،خصوصاً زیر حراست لوگوں کی زندگی محفوظ نہیں ۔ بلوچستان میں سیاست یہ رخ کبھی اختیار نہ کرتی اگر یہاں پر لوگوں کو برابری کے حقوق دیئے جاتے تو پاکستان زیادہ پر امن اور خوش حال ملک ہوتا۔ شاید اس پس منظر میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے یہ یقین دہائی کرادی کہ فوجی عدالتیں صرف اور صرف مذہبی اور فرقہ دارانہ دہشت گردی میں ملوث افراد کے خلاف استعمال ہوں گی، سیاسی مخالفین کے خلاف یہ فوجی عدالتیں استعمال نہیں ہوں گی۔ بہر حال ان کی یہ یقین دہائی خوش آئند ہے جس سے صوبے میں سیاسی صورت حال پر مثبت اثر پڑ سکتا ہے ۔سیاست کو دہشت گردی کے ساتھ نہ ملایا جائے تو یہ ملک اور قوم کیلئے بہتر ہوگا۔
دہشت گردی اور سیاسی جدوجہد
وقتِ اشاعت : January 18 – 2015