گوادر شہر پاکستان کا واحداور منفرد شہرہوگاجہاں ایک ملک میں دو نظام ہوں گے۔ایک ریاست کے اندر ایک چھوٹی ریاست قائم ہوگی۔اس کی اپنی الگ سرحدیں ہوں گی، اور انٹری پوائنٹس بھی ہوں گے یعنی ایک میان میں دو تلواریں ہوں گی۔سیاسی حلقوں کے مطابق شہر کے چاروں طرف باڑلگا کرسیل کرنے کے بعدشہریوں کو اسپیشل پاسز جاری کئے جائیں گے۔ اور شہر میں آنے والوں کو راہداری (ویزہ) کی طرح کے پاسز جاری کئے جائیں گے۔ اس طرح گوادری تہری (تین) شہریت کے مالک ہونگے۔ اس سے قبل وہ دوہری شہریت رکھتے تھے یعنی سلطان آف عمان اور گورنمنٹ آف پاکستان کے شہری تھے۔ اب وہ پاکستان کے اندر دوہری شہریت کے مالک ہونگے۔ ان کے پاس اسپیشل کارڈ ہونگے۔ اس طرح ان کے پاس شہریت کی تین دستاویزات ہونگی۔
ہمارے ایک محترم دوست اور روزنامہ پاک کے ایڈیٹر، غلام نبی چانڈیو نے گوادر میں حکومتی پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل بلوچستان سے سیاسی ورکرز مسنگ ہوتے تھے۔اب پورے شہر کے شہر مسنگ کئے جارہے ہیں۔
سیاسی و سماجی حلقوں نے پنجاب کے سرحدی ایریا میں واقع شہروں کو باڑ نہ لگانے پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نارووال، سیالکوٹ، لاہور، قصور، اوکاڑہ، پاکپتن، بہاولنگر، بہاولپور سمیت دیگر سرحدی شہروں میں باڑلگانے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جہاں شہری آبادی پر سرحد پار بلااشتعال فائرنگ ہوتی ہے جو ایک افسوسناک عمل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس منصوبے کی جہاں ضرورت ہے وہاں شروع کیا جائے۔ جبکہ گوادر شہر سرحدی علاقہ نہیں ہے بلکہ گوادر شہرایرانی سرحد سے ایک سو بیس کلو میٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔ اور ایران ہمارا ایک دوست اور ہمسایہ ملک ہے۔ گوادر ضلع سمیت مکران کے دیگر اضلاع کی بجلی بھی ایران سے آرہی ہے۔ ایران کی مہربانی کی وجہ سے ان علاقوں میں اجالا ہوتا ہے اور کاروبار کا پہیہ چلتا ہے، وگرنہ آدھا بلوچستان تاریکی میں ڈوب چکا ہوتا۔
گوادر کے ماہی گیر تنظیموں کا کہنا ہے کہ گوادر میں باڑ لگانے کے منصوبے پر پیسے ضائع کرنے کے بجائے شہر میں سیوریج کا نظام، تعلیم اور صحت سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ گوادر شہر میں بنیادی اسٹرکچر کی صورت حال تسلی بخش نہیں، بالخصوص سڑکوں کا نظام درہم برہم ہے۔ گلیوں اور دیگر مقامات پر جانے والی سڑکیں یا تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں یا وجود ہی نہیں رکھتیں۔سڑکوں کی صورت حال خراب ہونے سے شہر کا بارونق تجارتی مرکز شاہی بازار بھی اپنی رونقیں کھو چکا ہے۔صفائی نہ ہونے کی وجہ سے صورت حال ابتر ہے۔ شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ ابلتے گٹروں کی وجہ سے وبائی امراض نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ شہر میں ملیریا اور ڈینگی جیسے امراض کی شرح کافی بڑھ چکی ہے۔
تعلیم کے لحاظ سے ضلع گوادر مکران ڈویژن کے دیگر اضلاع کے نسبت کافی پیچھے ہے بنیادی تعلیم پرائمری سے میٹرک تک اور اسکول بنیادی سہولیات، اساتذہ کی کمی جیسے مسائل کا شکار ہیں۔ڈگری کالج کی پرانی عمارت فری زون میں آگئی تھی جس کے باعث عمارت کے لئے متبادل اراضی دی گئی جس پرگزشتہ ایک عرصے سے نئی عمارت پر کام جاری ہے۔ تاہم کام کی سست روی کی وجہ سے رفاعی پلاٹ پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ منصوبے کے اردگرد لینڈ مافیا سرگرم ہے۔ جبکہ بچے زیر تعمیر عمارت کے کچھ مکمل حصوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ عمارت کو جلد مکمل کیا جائے۔
یونیورسٹی کے قیام کے لئے 493 ایکڑ اراضی مختص کی گئی تھی جس کا باقاعدہ افتتاح سابق وزیراعظم میاں محمدنواز شریف اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کیا تھا۔ تاہم نئی حکومت کے آنے کے بعد یونیورسٹی کی اراضی بھی لاپتہ ہوگئی۔ شاید لاپتہ ہونا بلوچوں کا مقدر بن چکا ہے۔ ان کی زمین بھی لاپتہ ہورہی ہے اور ساتھ ساتھ انسان سمیت شہر بھی لاپتہ ہورہے ہیں۔
گریجویشن مکمل کرنے کے بعد بچے تعلیم کو خیرباد کہتے ہیں کیونکہ یونیورسٹی جانے کے لئے انہیں تربت، کوئٹہ اور کراچی جانا پڑتا ہے۔ اس لاوارث شہر کے غریب ماہی گیروں کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنے بچوں کو مزید تعلیم کے لیے کراچی، کوئٹہ یا تربت بھیج سکیں۔ وہ پہلے سے ہی بمشکل دو وقت روٹی ماہی گیری سے حاصل کرتے ہیں اور وہ بھی ان سے چھینی جارہی ہے۔ گوادر میں سیکیورٹی کے نام پر انہیں بعض جگہوں پر مچھلی کا شکار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جہاں کسی زمانے میں وہ مچھلی کا شکار کرتے تھے۔ان علاقوں میں مچھلیوں کثیرتعداد میں پائی جاتی ہے کیونکہ سمندر کے ہر کونے میں مچھلی نہیں ہوتی ۔ مچھلی بھی خاص ماحول اور مخصوص سمندری چٹانوں یا جگہوں میں پائی جاتی ہے۔ شکار کے وہ علاقے ممنوعہ قراردیئے گئے ہیں۔اب صورتحال یہ ہے کہ ماہی گیر ان علاقوں میں مچھلی شکار کرنے جاتے ہیں جہاں مچھلی نہیں ہوتی، اوپر سے کراچی اور سونمیانی ڈیم لسبیلہ سے آنے والے بڑے بڑے ٹرالرز (لانچ) نے سمندر میں مچھلیوں کی نسل کشی کرکے سمندر کو بانجھ کردیا ہے۔ گوادر کے 80فیصد لوگ ماہی گیری کا کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا بڑا ذریعہ معاش نہیں ہے، مگر ماہی گیری کے اس دنگل میں ٹرالر مافیا والے گوادر کے محنت کشوں کی روزی پر لات مارتے رہتے ہیں۔ جس کی مثال یہ ہے کہ 750کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی سے سالانہ صرف 147ہزارٹن مچھلی کا شکار ہوتا ہے۔ جبکہ350کلومیٹر کی سندھ کے ساحلی پٹی سے 346ہزار ٹن مچھلی پکڑی جاتی ہے۔ ان ٹرالرز کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ باہر سے آنے والے بڑے بڑے ٹرالرز مقامی ماہی گیروں پر تشدد بھی کرتے ہیں اور ان کے جالوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس طرح وہ سمندر میں بھی غیر محفوظ ہیں۔ حالانکہ اس سلسلے میں بے شمار احتجاجی مظاہرے کئے گئے لیکن متعلقہ حکام خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
گوادر ڈسٹرکٹ ہسپتال میں ادویات سمیت اسٹاف کی بھی کمی ہے۔ ہسپتال میں آپریشن تھیٹر تو موجود ہے مگر تاحال غیر فعال ہے۔ مریض علاج کے لیے ہزاروں میل دور کراچی کا سفر طے کرتے ہیں۔
سی پیک کا مرکز گوادر سی پیک کے منصوبوں کے ثمرات سے محروم ہے۔ یہ ثمرات کس کو نصیب ہونگے۔ فی الحال کوئی نہیں جانتا ۔ سیاسی حلقوں نے کا کہنا ہے کہ گوادر میں جو بھی منصوبے شروع کیے جارہے ہیں وہ ان کے لئے نہیںہیں بلکہ مستقبل میں باہر سے آنے والوں کے لئے ہونگے۔ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قیام سے لے کر دیگر منصوبوں سے ان کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آسکتی کیونکہ ان کا سرفہرست مسئلہ روزگار، علاج، تعلیم اور صحت جیسے اہم بنیادی سہولیات ہیں۔
سیاسی و سماجی حلقوں نے گوادر کو باڑ لگاکر سیل کرنے کو گوادر کے عوام کی نقل و حرکت پر قدغن لگانے کے مترادف قراردیتے ہوئے کہا کہ سرحدوں کو تو باڑ لگاکر بند کیا جاتا ہے ، شہروں کو باڑ لگانا حکومت کا انوکھا کارنامہ ہے۔ جو ایک جیل کی مانند ہے جس میں پوری شہری آبادی قید ہوگی جو انہیں منظور
نہیں ہے۔
مسنگ سٹی
وقتِ اشاعت : December 19 – 2020