ایک زمانہ تھا کہ کہ علم کا اصول جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، نقل و حرکت کے محدود وسائل نے اسے غریب کے لیے مشکل تربنا دیا تھا۔ قرون وسطیٰ میں علم کا حصول مرایات یافتہ طبقے کی دسترس تک محدود تھا۔ قلم کے ساتھ کتابوں کی طباعت کے باعث دنیا بھر میں محدود پیمانے پر کتابیں مارکیٹ تک پہنچتی تھیں اور علم کے حصول کے لیے طالب علموں کو سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا۔لہذا اہم تعلیمی مراکز ، یونیورسٹیز اور لائبریریز تک رسائی غریب کے لیے دیوانے کا خواب تصور کیا جاتا تھا۔
مگر پندرویں صدی کے وسط میں کچھ انوکھا ہوگیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے علم مراعات یافتہ طبقے کی آ را م دہ اور سہل کمروں سے نکل کر دنیا بھر میں پہنچنا شروع ہوگیا۔ دنیا بھر میں نشاط ثانیہ کی اصل شکل نظر آنا شروع ہوئی۔ روشن خیالی کی تحریک کو تقویت ملی اور پھردیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں صنعتی اور سائنسی انقلاب بھرپا ہوگیا۔ دنیا بھر میں اس انقلاب کو بھرپا کرنے کا سہرا پرنٹنگ پریس اور اس کے موجد یوحنس گوٹن برگ کے سر جاتا ہے۔ محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد کی دنیا اس سے پہلے کی دنیا سے بہت مختلف بلکہ تبدیل ہوکر رہ گئی۔
پرنٹنگ پریس کی ایجاد کو آج بھی ایک انقلابی ایجادتصور کیا جاتا ہے۔پندرہویں صدی سے اب ہم چلتے ہیں سال دو ہزار آٹھ کی جانب جہاں ایک سو پچاس ملین یورو کی خطیررقم سے ایک بائیو فارماسیوٹیکل کمپنی قائم کی جاتی ہے۔ اگلے پانچ سال تک یہ کمپنی صرف کینسر سے متعلق تحقیق ، نئی ٹیکنالوجیزاورادویات کی تیاری پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہے۔ سال دوہزارچودہ سے سال دو ہزا اٹھارہ کے درمیان یہ کمپنی کینسر کی مختلف اقسام سمیت دیگر موذی امراض پر تحقیق کرکے نہ صرف اس سے متعلق پیپرز شائع کرتی رہی بلکہ بلکہ مختلف اقسام کی ادویات تیار کرکے انہیں اپنی کمپنی کے نام سے رجسٹرڈ بھی کراتی ہے۔
کمپنی کے کام اور ان کی تحقیق کو مد نظر رکھ کر ستمبر دو ہزار انیس کو بل اینڈ گیٹس فائونڈیشن کے جانب سے مذکورہ کمپنی کو پچپن ملین ڈالر کی خطیر رقم عطیہ کی جاتی ہے۔ اکتوبر دو ہزار انیس کو کمپنی اپنے ہیڈ کوارٹر سے نکل امریکہ کارخ کرتی ہے اور کیمبرج میسی چیوسٹس میں اپنی ایک برانچ قائم کرتی ہے۔ دسمبر دو ہزار انیس کو یورپین کمیشن انویسٹمنٹ پلان فار یورپ کی جانب سے پچاس ملین یورو کی امداد جبکہ جون دو ہزار بیس میں سنگاپور کی جانب سے شئیرز کی مد میں دو سو پچاس ملین ڈالر جبکہ یورپیئن انویسٹمنٹ بینک کی جانب ایک سو ملین یورو بطور قرضہ فراہم کی جاتی ہے۔
یہی کمپنی جنوری دو ہزار بیس کے وسط سے، جب دنیا میں پہلی بار کووڈ انیس جیسی موذی بیماری کے بارے میں اطلاعات اور علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں ، اس مرض کے علاج کے لیے ویکسین کی تیاری میں جت جاتی ہے۔نو نومبر دو ہزار بیس کویہ کمپنی اپنے ایک امریکن ادارے کے اشتراک سے اس بات کا اعلان کرتی ہے انہوں نے کورونا کی بیماری کے علاج کے لیئے نہ صرف ویکسین تیار کرلی ہے بلکہ چھ ممالک کے تیرتالیس ہزار سے زائد افراد پر اسے ٹیسٹ بھی کیا ہے جبکہ اس ویکسین کے موثر ہونے کا تناسب نوے فیصد سے زیادہ ہے۔
برطانیہ میں اس کمپنی کی تیار کردہ ویکسین کو عام لوگوں پر اس کے استعمال کے لیے دو دسمبر دو ہزار بیس کو مشروط اور عارضی طور پر اجازت دی جاتی ہے، بعد ازاں امریکہ، کینیڈا اوراب یورپی یونین نے بھی اسی کمپنی کی تیار کردہ ویکسین کوعام لوگوں پراستعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔دنیا بھر میں گزشتہ ایک سال سے انیس لاکھ سے زائد افراد کی موت ، نو کروڑ سے زائد افراد کو متاثر،کروڑوں افراد کو بے روزگاراور دنیا بھر کی معیشت کو کھربوں ڈالر کا نقصان پہنچانے والی بیماری کووڈ انیس کے علاج کے لیے بننے والی اس ویکسین نے انسانیت کی کس قدر خدمت کی ہوگی۔
اس کا اندازہ ہمیں بعد میں ہوگا۔ اب آتے ہیں اصل بات کی جانب۔ دنیا بھر میں انقلاب بھرپا کرنے والی ان دونوں ایجادات کا تعلق نہ صرف یورپی ملک جرمنی بلکہ جرمنی کے ایک ہیی شہر مائنز سے ہے۔ پرنٹنگ پریس کے موجد یوہنس گوٹن برگ سن چودہ سوکو مائنز شہر کے ایک تاجر اور سنار فریلے کے گھر پیدا ہوئے۔ اسی شہر میں ان کے نام سے ایک میوزیم بھی قائم ہے جہاں اس کی ایجاد کردہ اولین پرنٹنگ پریس میں تیار ہونے والی الہامی کتاب انجیل کی پرنٹ شدہ اولین کاپی بھی موجود ہے۔ جبکہ دو ہزار آٹھ میں مائنز شہر میں رجسٹرڈ ہونے والی فارماسیوٹیکل کمپنی کا نام بائیو فارماسیوٹیکل نیو ٹیکانولجیز ہے ۔
جسے حرف عام میں بیون ٹیک کہا جاتا ہے۔ یہ کمپنی ایک ترک نژاد جرمن جوڑے نے اپنے ایک آسٹرین ساتھی کے تعاون سے قائم کیا ہے۔ اوگر شاہین اور اوزلم توریچی دونوں کی پیدائش ترکی کی ہے تاہم وہ کم عمری ہی میں اپنے والدین کے ہمراہ جرمنی آگئے تھے۔اپنی مکمل تعلیم اور ریسرچ کا کام انہوں نے یہیں جرمنی میں مکمل کرکے اپنے فرم کی بنیاد ڈالی۔ کچھ مائنز شہر کے بارے میں۔مائنز شہر جرمن ریاست رائن لینڈ پلیٹی لیٹ کا دارلحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ دو لاکھ اٹھارہ ہزار کی آبادی والا یہ شہر دریائے رائن کے کنارے آباد ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق شہر کو رومنوں نے سترہ قبل مسیح میںتعمیر کیا تھا۔ اس دور میں موجودہ جرمنی دو صوبوں میں تقسیم تھی۔مائنز شہرصوبہ گرمانیا سپیرئیر کا ہیڈ کوارٹر اور ایک فوجی قلعے کی حیثیت رکھتا تھا۔ مائنز شہر گزشتہ دو ہزار سالوں سے شراب کی تیاری اور فروخت کے حوالے دنیا بھر میں مشہور ہے۔دوسری جنگ عظیم کے دوران اتحادی افواج سے اس شہر پر تیس سے زائد فضائی حملے کئے جس سے اس شہر کی زیادہ تر تاریخی عمارات تباہ ہوگئیں تاہم تعمیر نو کے عمل کے بعد اس شہر کی رونقین دوبارہ بحال ہوگئی ہیں۔
akhtarshaheenrind
Kia bat ha habib bhai.