طالبان نے افغان حکومت اور اس کے مغربی اتحادیوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ گزشتہ برس طے پانے والے معاہدے پر عمل نہیں کررہے جن میں قیدیوں کی رہائی اور غیر ملکی افواج کی بے دخلی شامل ہے۔
دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ایک سینئر ممبر نے الجزیرہ کو بتایا کہ قطری دارالحکومت میں انٹرا افغان بات چیت کے آغاز کے 3 ماہ میں تمام طالبان قیدیوں کو رہا کیا جانا تھا۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ 5 ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور انہوں نے ایک بھی قیدی رہا نہیں کیا۔
انہوں نے طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کا الزام صدر اشرف غنی پر عائد کیا۔
دوحہ میں طالبان کی جانب سے مذکورہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب طالبان نے ہفتوں کی تاخیر اور امریکی قیادت میں تبدیلی کے بعد دوحہ میں افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا۔
طالبان عہدیدار نے بقیہ امریکی افواج کے انخلا میں تاخیر پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن کی نئی امریکی انتظامیہ فروری 2020 میں ہونے والے دوحہ معاہدے پر نظرثانی کر رہی ہے۔
جوبائیڈن نے تنازعے کے سیاسی حل کی حمایت کی ہے لیکن وہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کی حتمی تاریخ پر اتفاق نہیں کرسکے۔
دوحہ میں طالبان عہدیدار نے کہا کہ امریکی حکومت کے ساتھ معاہدہ ہے اور ہم ان سے معاہدے کی پاسداری کی توقع کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان تحریری معاہدے کے پابند ہیں اور ہم توقع کرتے ہیں کہ دوسرا فریق (امریکا) بھی ایسا ہی کرے گا۔
خیال رہے کہ 29 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے میں بین الافغان مذاکرات طے پائے تھے، اس وقت اس معاہدے کو 40 سال سے جاری جنگ میں امن کا بہتری موقع قرار دیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر یہ توقع کی جارہی تھی کہ 29 فروری کو معاہدے کے چند ہفتوں میں مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا تاہم شروع سے ہی اس ٹائم لائن میں تاخیر کے باعث خلل پڑنا شروع ہوگیا تھا۔
امریکا کے ساتھ ہوئے طالبان کے معاہدے میں سے قبل ہی یہ طے کیا گیا تھا کہ افغان حکومت 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرے گی جبکہ طالبان بدلے میں ایک ہزار حکومتی اور عسکری اہلکاروں کو اپنی حراست سے چھوڑیں گے تاہم اس میں مسائل کا سامنا رہا اور افغان حکومت اس سے گریز کرتی نظر آئی۔
مزید یہ کابل میں جاری سیاسی بحران نے مذاکرات کو مزید تاخیر کا شکار بنادیا کیونکہ وہاں افغان صدر اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ نے متنازع صدارتی انتخابات میں ایک دوسرے پر فتح کا اعلان کردیا۔
بعد ازاں دونوں فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی بھی دیکھنے میں آئی تھی اور طالبان کے 6 قیدیوں کی آخری رکاوٹ دور ہونے کے بعد قطر کی وزارت خارجہ نے مذاکرات کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔
اس حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘افغانستان کے فریقین کے درمیان یہ براہ راست مذاکرات انتہائی اہم ہیں اور افغانستان میں دیرپا امن کی جانب قدم ہے۔’