|

وقتِ اشاعت :   May 3 – 2015

کوئٹہ : بلوچ اسٹو ڈنٹس آرگنا ئزیشن کے زیر اہتمام شہید وطن کامریڈ فدا بلوچ کی ستائیسویں برسی کے موقع پر شہید حمید بلوچ آڈیٹوریم ڈگری کالج سریاب روڈ کو ئٹہ میں تعزیتی جلسہ عام منعقد ہوا۔جس کی صدارت شہید فدا بلوچ کی روح جبکہ مہمان خاص بی ایس او کے مرکزی آرگنا ئزر جاوید بلوچ اور اعزازی مہمان خاص بی این پی کے مرکزی رہنماء ملک نصیر شاہوانی ملک ولی کاکڑ اختر حسین لانگو جمیلہ بلوچ غلام نبی مری منیر جالب عاطف بلوچ تھے۔ جلسہ کآغاز تلاوت کلام پاک جو حاجی ابراہیم پرکانی نے کی ۔جبکہ پرویز بلوچ دیگر ترانہ سے باقاعدہ جلسہ کا بناء کردیا۔ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او کے مرکزی آرگنا ئزر جاوید بلوچ اور اعزازی مہمان خاص بی این پی کے مرکزی رہنماء ملک نصیر شاہوانی ملک ولی کاکڑ اختر حسین لانگو جمیلہ بلوچ غلام نبی مری منیر جالب عاطف بلوچ منورہ سلطان شوکت بلوچ اسرار بلوچ فہد بلوچ سلمان بلوچ اشفاق بلوچ مدثر بلوچ سلال بلوچ الطاف بلوچ سمیت دیگر نے شہید فدا بلوچ کی قربانی کو بلوچ قومی تحریک میں لازوال قربانی قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہید فدا بلوچ نے قربانی دیکر ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ ہم ان کی قربانی کومشعل راہ بنا کران حالات میں بلوچ سرزمین پر جاری تسلط بلوچ قومی بقاء کے خلاف سازشوں کو ان کی حقیقی نعرہ اتحاد جدوجہد آخری فتح تک کے ارمان کی تکمیل کو ممکن بنا سکے۔بلوچستان کا مسئلہ شدت سے قابو سے نکل چکی ہے۔لیکن اقتدار پسند قوتیں کسی بھی مرحلے اسے تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ سابقہ دور میں گوادر کا یکطرفہ اعلان ہوا لیکن اس پر معائدہ نہ ہوسکا لیکن جعلی مینڈیٹ کے جعلی جکمرانوں نے جس طرح دڑادڑھ چین سنگاپور دبئی میں آنکھیں بند کرکے معائدات کئے۔قطع نظر اس کہ بلوچ قوم کو اپنے وسائل سے بے اختیار کرکے بلوچستان میں احساس محرومی تصادم کی شکل میں بلوچستان میں جاری عدم استحکام کا باعث ہے۔جس پر سمجھوتہ شہداء کی فکر وسوچ اور بلوچستان کے عوام کی کواہشات کے خلاف ہے۔جس سے بلوچستان میں مذید احساس محرومی بڑیگی۔گوادر کو فروخت کرکے بلوچ خدشات کو م؛حوظ خاطر نہیں رکھا جارہا جو خود کو قوم پرستی سے نتھی کر رہے شہید فدا کی برسی پر خود کا احتساب کریں کہ انھوں نے اقتدار تو حاصک کی لیکن بلوچ قوم کو کس قدر مستقبل کے پیمانے پر نقصانات سے دوچار کیا ہے۔نوجوان تعلیمی اداروں سے غائب کرکے ان کے ورثاء کے ارمانوں کو تلخ حقیقت میں کیوں لاچار بنا کر ان کے سینوں میں سلگتے انگار لگا دئیے گئے۔ بلوچستان میں آپریشن کس جمہوری شکل میں جائز اور سوالات سے مثتثنیٰ عمل ہے۔جس پر لب کشائی غداری کے لقب سے قریب کرتا ہو۔گوادر کی ملکیت بلوچستان کی ہے۔جس کی روٹ پر خون خرابہ کا خدشہ کا اظہار کیا جارہا ہے۔ بلوچستان میں انتہاء پسندی کی فروغ افغان مہاجرین کو مقامی بنانے کی سمجھوتہ بازی تعلیمی اداروں کی منتقلی میں شدت اور کرپشن تقریاں لسانی بنیادوں پر نفرتوں کی فروغ اور میڈیا پر قدغن لگانے کی سازش اور بی ایس او و بی این پی کی قومی آواز کو روکنے کے لئے اشتہارات بطور رشوت ستانی کس بنیاد کی جا رہی ہے۔ کہ اسل حقیقت سامنے نہ آجائیں۔ ڈگری کالج کی حالت یہ ہے کہ یہ حال اس قدر خستہ حال ہے ۔کہ تعلیمی ایمرجنسی کوئی حادثہ کا سبب نہ بنے تو باقی تعلیمی معیار کا اندازہ اور دلچسپیوں کو مشاہدہ اس سے ظاہر ہے۔قوموں کے درمیان نفرتوں کی دیوار کھڑی کرکے اپنے سیاسی بیساکھیوں کو مضبوط کرکے کی خاطر بلوچستان کے حالات کو لٹیرون کے حوالے کیا گیا۔شہید فدا بلوچ کے فکر کو اسمبلی کی دہلیز پر نیلام کرنے والے بلوچ ننگ وناموس کی پامالی پر چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔سبین محمود کا قتل ایک حادثہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک سوچ کار فرما ہے۔جو حق و صداقت کی پرچار اور بلوچ مسئلہ پر لب کشائی کا سزا وار ٹھہری اور ہدف نشانہ بنا۔بلوچستان میں لا قانونیت ہے۔ جہاں مخصوص قوتوں کو ذاتی سہولیات و تحفظات دیکر بلوچستان کو بارو د برداروں سیکورٹی دستوں اور مسلح قوتوں کے حوالے کیا گیا ہے۔ مشکے آواران میں آپریشن جاری ہے۔جبکہ زلزلہ کی تباہ کاریوں پر اہل آواران کے مکانات و ماڈل سٹی تو نہ بنا بلکہ بیرون ملک ان کے لئے دی ہوئی امداد حکومتی حلقوں کے لیئے آسائشوں کا ذریعہ بنا۔ بلوچ حقوق دینے والوں نے خیرات کی طرح بلوچ قوم کو بھکاری پیش کرنے کی حجلت روا رکھی ہے۔بلوچستان کا مسئلہ کسی خیرات و بھیک کی بنیاد پر حاصل فنڈز کی حصول کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ بلوچستان کی قومی وسائل کی حق ملکیت کا ہے۔جس سے بلوچ قوم گزشتہ ستر سالوں سے محروم طاقتور قوتوں کی زیر اثر دہشت گردی بد امنی سیاسی قومی معاشی اور جمہوری حقوق سے استحصال کا شکار ہے۔ بی ایس او شہداء کی مشن کی تکمیل کو قلم و کتاب سے لیس شعوری بنیادوں پر منظم سیاسی انداز میں مشعل راہ بنا کر بلوچ قومی حق خودارادیت کی حقیقی جدوجہد کو با عمل بنانیکی کوشش کر رہی ہے۔ علم عمل کی محتاج ہے ۔کسی بھی تحریک میں عمل قومی جذبہ کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ تعلیم کے بغیر جدید صدی سے بلوچ نوجوان مستفید نہیں ہونگے۔ کیونکہ اکیسویں صدی جدت ٹیکنالوجی کی صدی اور تیز ترین صدی میں انقلاب تعلیم علم و ہنر سے ممکن ہے۔ نوجوان تعلیم کو مقسد بناکر بلوچستان میں جاری جمودکو تھوڑ کر روایتی و غیر جمہوری طرز عمل کو ختم کرکے بلوچ قومی تشخص کا دفاع کریں۔ وقت کے ساتھ سیاسی وقومی حکمت عملی سے بلوچ قومی شناخت ساحل و وسائل اور سرزمین کا دفاع ممکن ہے۔ جو روشن مستقبل کے لئے ضروری ہے۔