اسلام آباد: بلوچستان نیشنل پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل پشتونخوامیپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی( ن) لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل سینیٹر غفور حیدری نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر میر کبیر محمد شہی پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سینیٹر فرحت اللہ بابرافراسیاب خٹک پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشین نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ پی ایف یو جے کے صدر شہزادہ ذوالفقار سینئر اینکر پرسن حامد میر عاصمہ شیزاری انصار عالم پلٹڈاٹ کے بلال محمود ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی نسرین اظہر لاپتہ افراد کے لواحقین کے تنظیم کی سربراہ آمنہ جنجوعہ مطیع اللہ جان بی ایس او کے سیکرٹری جنرل محمد عظیم بلوچ دین محمد بلوچ کی بیٹی سیمی دین محمد بلوچ انعام اللہ عباسی نے اسلام آباد میں بی این پی کے زیر اہتمام عالمی حقوق کے دن کے موقع پر منعقد ہ پروگرام سے خطاب کیا۔
اس موقع پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ وسابق وزیراعلی بلوچستان سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی بجائے حکومت کی حمایت یا پھر حکومت گرانے ونئی حکومت لانے سے متعلق کانفرنس ہوتی تو یہاں کیمروں کیلئے جگہ کم پڑ جاتی ،پاکستان میں سب سے مظلوم آئین ہے جنہیں ہر کوئی پاں تلے روند کر چلاجاتاہے ،بلوچستان کے لوگوں پر سازش کے تحت تعلیم کے دروازے بند کئے جارہے ہیں ،لاپتہ افراد کا مسئلہ دن بدن گھمبیر ہورہاہے ،سی پیک کے ثمرات سے بلوچستان محروم ہونے کی بات پر ہمارے خلاف اخبارات میں مقالے شائع کئے گئے آج ہزاروں خواتین ومرد کے سڑکوں پر آنے سے ہمارے موقف کی تائید ہوگئی ہے ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیراہتمام انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر لاپتہ افراد سے متعلق منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ انسانی حقوق کے عالمی دن کے مناسبت سے مجھے اور باقی دوستوں کو بھی ٹیلی فون آتے رہے ہیں کہ آج کے دن کے مناسبت سے بلوچستان کے لاپتہ افراد کے بھی نام لیے جائے بلوچستان کے لاپتہ افراد کے حوالے سے میں تقریر شروع کروں تو اس میں دن ہفتے اور مہینے لگے گے ہمارے بلوچستان کے لوگوں ہمیشہ یہ گلہ رہتا ہے کہ آپ بلوچستان میں بیٹھے کر لاپتہ افراد کی بات کرتے ہیں۔
لاہور اور اسلام آباد اس حوالے سے بات نہیں کرتے شائد میرے الفاظ میں تلخی ضرور ہوگی یہ جو آگ لگی ہوئی ہے جس سے جسم کا ہر پہلو جھلا ہواہے ہم یہ توقع کررہے تھے آج اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں اتنے لوگ ہوتے کہ مجھے اپنے کارکن حال سے باہر بٹھانے پڑتے معذرت کے ساتھ میڈیا جس کا رول ہر اول دستے کا ہوتا ہے ناانصافیوں کے خلاف بولنا اگر آج ہم اعلان کرتے کہ آج ہم حکومت کی حمایت میں یہ کانفرنس کررہے ہیں تو شائد یہاں کیمروں کیلئے جگہ نہ ہوتی اگر ہم یہ اعلان کرتے کہ اس حکومت کو گرانے اور دوسری حکومت لانے کا اعلان ہوتا تو یہاں کیمروں اور مائیکوں کیلئے جگہ نہ ہوتی اس ملک میں انسان اس کو سمجھا جاتا ہے جس کے جسم پر خاکی وردی ہو اس دنیا میں انسانی حقوق اس کے ہوتے ہیں بدقسمتی سے نہ ہماری وردی خاکی ہے اور نہ ہی ہماری چمڑی سفید ہے انسانی حقو ق کے حوالے سے آج جودن بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے لیکن آج خوشی کی بجائے ہمارے آنکھوں میں آنسو ہے ہماری مائیں ،بہنیں جو یہاں بیٹھی ہے اگر قلات ان کا تعلق ہو تو انہوں نے شائد زندگی میں قلات کا بازار دیکھا ہو ہمارا معاشرہ ہماری تہذہب عورتوں کو شہروں میں نہیں جانے دیتے۔
لیکن وہی خواتین کوئٹہ سے کراچی پیدل مارچ اور پھر کراچی سے اسلام آبادتک پیدل مارچ کرتی ہے اس کی کوئی شنوانی نہیں ہوتی جب وہ یہاں ڈی چوک پر دھرنا دیتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے احتجاج کرتی ہے جو وہاں تمام خواتین کی عزت کیلئے ڈال بنا ہوتا ہے لیکن آج اس سیمینار میں اپنے بھائی، بیٹھے اور شوہر کی بازیابی کیلئے موجود ہے تاکہ ان کی بازیابی ممکن ہو یہ خواتین اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کو یہ بتانے کیلئے کہ یہ میرے بیٹھے، بھائی یا شوہر کی تصویر ہے اسے بازیاب کیا جائے لیکن ہم اندھے اور گھونگے سماج میں رہتے ہیں جہاں پر صرف طاقت اور زوراور کی آواز سنی جاتی ہے سردار اختر جان مینگل کا کہنا تھا کہ ہم نے بہت سے مظلوم دیکھے ہے لیکن اس ملک کا آئین سب سے زیادہ مظلوم ہے جس کو ہر کوئی اپنے بوٹوں تلے روندھ دیتا ہے اور ہم لوگوں کو اس آئین کا واسطہ دیتے ہیں لیکن وہ آئین خود ہی مظلوم ہے اگر میں اس سیمینار میں اعلان کروں کہ مجھے کسی کا موبائل ملا ہے تو بھی آپ اپنی جیب ٹھٹولیں گے لیکن جس کا باپ ،بھائی یا شوہر لاپتہ ہو ان کا کیا حال ہوگا ہمارے نزیک اس موبائل کی قیمت ہے ہم ان ڈکٹیٹروںاور آمروں کو کھوسے لیکن کونسی حکومت ہے جس میں مسخ شدہ نوجوانوں کی لاشیں نہ گرائی گئی ہوں 1988میں بلوچستان میں نواب اکبر خان بگٹی کی حکومت تھی ہم اس کے اتحادی تھے اخبار میں دوخبریں چھپی ایک خبر ایک 7سالہ بچے کی لاپتہ ہونے کی تھی۔
جبکہ دوسری خبر کینٹ سے ایک میجر کی بندر کی گمشدگی کی تھی لیکن تیسرے دن خبر چھپی کے میجر کی بندر مل گئی لیکن بچہ نہیں ملا جب بچے کے والدین ہوم سیکرٹری کے پاس گئے کہ بندر بازیاب ہوتا ہے لیکن بچہ بازیاب نہیں ہوتا بلوچستان میں تعلیم کے دروازے ہمارے اوپر بند کیے جارہے ہیں روز گار کے دروازے بند کیے جارہے ہیں اس ملک میں صحافی بھی محفوظ نہیں رہے لاپتہ افراد کا مسئلہ دن بدن گھمبیر ہوتا جارہاہے بلوچستان میں پکنک منانے والے نوجوانوں کو بھی لاپتہ کیا جارہاہے بین الاقوامی سرمایہ کار کس طرح ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کرے گا اسلام آباد میں ہم نے سمینار منعقد کی ہم نے سی پیک کے حوالے سے بتایا کہ سی پیک سے بلوچستان میں کوئی ترقی نہیں ہوگی ہمارے مقابلے میں اخبارات میں مکالے لکھے گئے جلسے کئے گئے کہ گوادر سے ترقی ہوگی آج بھی گوادرکے عوام کو بجلی اور گیس میسر نہیں اب ماہی گیروں کو بے روزگار کیا گیا یہاں پر گیس کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تولوگ احتجاج کرتے ہیں لیکن ہمیں بلوچستان میں بیشتر حصے میں گیس میسر نہیں ۔ن لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ہمیں رستے ہوئے زخمی کی طرح کمزور کر رہا ہے یہ قانون کے خلاف ہے کہ کسی کو غائب کر دیا جائے جس ملک میں آئین مسنگ ہو جائے وہاں شہری حقوق مسنگ ہو جاتے ہیں اور پھر شہری خود بھی مسنگ ہو جاتے ہیں جو حکومتیں عوام کی منشاسے نہ آئیں تو وہ ان لوگوں کی منشاکے مطابق کام کرتے ہیں جو ان کو حکومتوں میں لاتے ہیں اس آئین کو ہم زندہ بنانا چاہتے ہیں لوگوں کو اغوااورقتل کر کے ففتھ جنریشن وار نہیں جیتی جا سکتی ریاست جبر سے مضبوط نہیں ہوتی اپنی جماعت کی طرف سے اس کانفرنس کے اغراض و مقاصد کی مکمل حمایت کرتا ہے ریاست سے یہ کہتا ہوں کہ لاپتہ افراد کو فوری رہا کیا جائے جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل سینیٹر غفور حیدری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو صاحب کے دور میں بلوچستان میں شہزادہ عبدالکریم جو خان قلات کے بھائی تھے انہوں نے بغاوت تھی اور اس کے بعد نواب نوروز خان نے پہاڑوں پر گئے۔
اس دور کے حکمرانوں نے قرآن پاک کا واسطہ کر انہیں نیچے اترا اور انہیں گرفتار کیا جائے لیکن اس کے باوجود 1972میں عام انتخابات ہوئے تو نواب خیر بخش مری سردار عطااللہ مینگل میر غوث بخش بزنجو نے ماضی کی تمام تلخیوں کو بلا کر انتخابات کا حصہ بنے ہم نے ہمیشہ مثبت سیاسی کی ہے لیکن ناانصافیوں پر مبنی پالیسیاں ختم نہیں کی گئیں جنرل مشرف کے دور میں نے قید کا سامنا ہے جھوٹے کیسز بنائے گئے تاریخ گواہ ہے کہ ایسے اقدامات سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہوئے ۔ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ فقط بلوچستان کا مسئلہ نہیں بلکہ سندھ خیبرپختونخواحتی کہ پنجاب سے بھی لوگوں کو لاپتہ کیا گیا سینیٹ کی کمیٹی نے لاپتہ افراد کے معاملے میں جب حکام سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ایک سال کے اندر بلوچستان سے51مسخ شدہ لاشیں اٹھائی گئیں ہیں ہمیں یہ برملا کہنا چاہئے کہ ریاستی ادارے اس میں ملوث ہیں 2018میں سینیٹ کمیٹی نے چیئرمین مسنگ پرسنز سے پوچھا کہ کیا آپ نے آزاد ہونے والے لوگوں سے پوچھا ہے کہ ان کو اغواہونے کے بعد کہاں رکھا گیا تھا تو انہوں نے لال و لیت سے کام لیا ارباب و اختیار سے گزارش ہے کہ ہوش سے کام لیں یہ دسمبر کا مہینہ ہے افراسیاب خٹک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میںجب سینیٹ میں تھا تو ہم نے انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی میں اس مسئلے پر کام کیا ہم وزارت دفاع کو خط لکھا اور ہم نے یہ لکھا کہ ہم نے اس مسئلے پر قانون بنایا ہے۔
ہم نے وزارت دفاع سے ان کا جواب طلب کیا لیکن وزارت دفاع نے اس پر اپنا موقف نہیں دیا اور سینیٹ میں بھی حکومت نے اس قانون کو پاس ہونے نہیں دیا پنجاب میں سیاسی بیداری کا آغاز ہو گیا ہے پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسنگ پرسنز ہر اس علاقے کا مسئلہ ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے جس علاقے میں جتنے زیادہ قدرتی وسائل ہوں گے وہاں اتنے زیادہ لوگ لاپتہ ہوں گے اگر کسی عدالت یا ٹی وی چینل میں ہمت ہے تو ہمارے پاس ثبوت ہے کہ کس طرح افسران لاپتہ افراد کے خاندانوں سے ڈرائی فروٹ اور بٹیر منگواتے ہیں تاکہ بدلے میں ان کے لاپتہ افراد سے ان کی ملاقات کروائی جائے جب دہشت پھیلے گا تو کوئی صحافی نہیں بھولے گا کوئی جج فیصلہ نہیں کر سکے گا دہشت سب سے بڑا کاروبار ہے دہشت پھیلنے والے ملک کے وفادار مانے جاتے ہیں جو پاکستان کے سب سے بڑے دشمن ملک ہیں ان کے ساتھ بھی یہ سلوک نہیں کیا گیا جو پختون اور بلوچ کے ساتھ ہو رہا ہے ان کو یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ ابھی نندن کا اپنا ملک ہے مگر آپ کا کوئی ملک نہیں ہے نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ سمیت سینکڑوں طلباپروفیسرز اور ڈاکٹروں کو اٹھایا گیا ہے سیمی بلوچ جس طرح لاپتہ افراد کے کیس کو اٹھا رہی ہیں وہ نہایت قابل تحسین ہے یہاں ہم علمی دن برائے انسانی حقوق پر لاپتہ افراد کا مسئلہ اس لئے اٹھا رہے ہیں۔
کیونکہ اس ملک میں پارلیمنٹ عدلیہ میڈیا تابے ہیں یہاں منتخب حکومت ہے بلکہ پارکسیز کو حکومت دے کر بٹھایا گیا ہے پی ایف یو جے کے صدر شہزادہ ذوالفقار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی نے آج چاروں صوبوں کے لوگوں کو یہاں اکٹھا کیا ہے یہ بی این پی کے لئے سنگ میل ہے انہوں نے لوگوں کو یہ ہمت دی کہ وہ اسلام آباد آ کر اس مسئلے پر بات کریں ہمارے بہت سے صحافی دوست بھی لاپتہ ہوئے اور شہید بھی ہوئے 26 صحافی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے پی ایف یو جے بھی انہیں خبروں کو شائع نہیں کرتا تھا حکومت اب میڈیا کو میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے کنٹرول کرنا چاہتی ہے اس مسئلے پر اب صرف سوشل میڈیا پر خبریں ملتی ہیں اب میڈیا کو روک اور چینلز ہو ہاف ایئر کیا جا رہا ہے آپ جانتے ہونگے کہ صحافیوں مطیع اللہ جان اور اسد طور کے ساتھ کیا ہوا تمام سیاسی جماعتیں اس مسئلے پر یکجا ہو جائیں سینئر اینکر پرسن حامد میر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بہت شکریہ اختر مینگل ذوالفقار بھٹو نے اپنی کتاب میں لکھا کہ میں نے جنرلوں سے پوچھا تم نے اسد اللہ مینگل کے ساتھ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ تو مار دیا گیا ہے بھٹو نے پوچھا کہ لاش کہاں ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ تو ہم نے ٹھٹھہ کے قریب کہیں دفنا دی ہے آپ یہ کہتے ہیں کہ وہ افغانستان بھگ گیا اگر کلبوشن کو اپنے خاندان سے ملاقات کا حق دیتے ہو تو دین محمد بلوچ کے خاندان کو بھی وہ حق دو اگر لاپتہ افراد کے اہل خانہ ثابت نہ کرسکیں کہ ان کے پیاروں کو کس نے اٹھایا ہے تو ان کو بھی اسلام آباد میں بی این پی کے پروگرام میں شرکت کرنے پر گرفتار کیا جائے گا شیخ مجیب الرحمان پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے تھے لیکن جب مغربی پاکستان سے آزاد ہو کر ڈھاکہ گئے تو وہاں کے عوام نے کہا کہ آپ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں رہیں ہم نہیں رہیں گے سینئر اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں لاپتہ افراد کے خاندانوں کا احساس ہے مرد اس مسئلے پر جدوجہد کر رہے ہیں لیکن انقلاب صرف خواتین لا سکتی ہیں ریاست خود لاپتہ اور اغواہو چکی ہے آئین اغوااور لاپتہ ہو چکا ہے آئین عوام اور ریاست کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔
جو عوامی حقوق کی ضمانت دیتا ہے سردار اختر مینگل چھ نکات لے کر سپریم کورٹ گئے تھے اور وہ تمام نکات آئین کے مطابق تھے سینئر صحافی ابصار عالم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا نواز شریف کو واپس آنے نہیں دیا جا رہا نواب اکبر خان بگٹی کو پرویز مشرف نے شہید کیا اب وہ ڈکٹیٹر خود ملک واپس آنے کو تیار نہیں ہے اس وقت بھی سیاستدانوں کیلئے یہ سبق ہے کہ وہ ڈکٹیٹروں کے اشاروں پر چلیں گے تو ان کا حشر بھی پہلے والوں کی طرح ہو گا پلٹڈا کے بلال محمود نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر سیاست صحافت اور انسانی حقوق کے قائدین بیٹھے ہیں سب کو اس مسئلے پر کردار ادا کرنا چاہئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی نسرین اظہر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی پاکستان بھی اسی وجہ سے الگ ہو تھا اب بلوچستان اور سندھ پر ظلم ہو رہا ہے لاپتہ افراد پر بنایا گیا کمیشن ناکارہ ہو چکا ہے اس کو اب ختم ہونا چاہئے لاپتہ افراد کے لواحقین کی سربراہ آمنہ جنجوعہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرے شوہر جو کہ بزنس مین تھے ان کو 2005میں پشاور جاتے ہوئے لاپتہ کیا گیا ہم لوگوں نے حامد میر کے ساتھ سڑکوں پر احتجاج کیا لیکن ان کے باوجود بحال شدہ سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کا کیس سننے سے انکار کر دیا سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بھی چند گھنٹوں کیلئے لاپتہ کیا گیا اس لئے مجھے پتہ ہے کہ لاپتہ افراد پر کیا گزارتی ہے اس موقع پر بی ایس او کے سیکرٹری جنرل محمد عظیم بلوچ دین محمد بلوچ کی بیٹی سیمی بلوچ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اس موقع پر اسٹیج سیکرٹری کے فرائض بی این کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ایم این اے آغا حسن بلوچ مرکزی کمیٹی کے ممبران ساجد ترین ایڈووکیٹ شکیلہ بلوچ نے سر انجام دیئے جبکہ عالمی دن کے مناسبت سے ہونے والے پروگرام کی قرار داد پارٹی کے مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری موسی بلوچ نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ عالمی دن کی مناسبت سے ہونے والے پروگرام یہ قراردادیں منظور کرتا ہے کہ حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں جب بھی لاپتہ افراد سے متعلق پیش کردہ مجوزہ قانون کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ مسودہ قانون لاپتہ افراد کے لواحقین کی مشورہ کیا جائے اور بل لایا جائے تو تمام افراد کیلئے قابل قبول ہو کالے قانون کو تسلیم نہیں کیا جائے گا بلوچستان سے جتنے بھی لاپتہ افراد ہیں ان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں لواحقین کو ذہنی کوفت سے چھٹکارا مل سکے گوادر کو حق دو کے حوالے سے ہونے والے دھرنے کے شرکاسیاسی سماجی رہنماں کے خلاف جھوٹے بے بنیاد مقدمات کا اندراج قابل مذمت ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ فورسز کے ذریعے جمہوری دھرنے کو زیر کرنے کیلئے اقدامات کئے جانے کا خدشہ ہے فوری طور پر ان کے تمام مطالبات تسلیم کئے جائیں اور طاقت کا سہارا لینے سے گریز کیا جائے ۔