|

وقتِ اشاعت :   December 20 – 2021

سیاست کو عبادت اور خدمت کا درجہ دینے والے نمائندوں نے ہی اب اسے غیر مہذب اور گالم گلوچ کا پلندہ بنا دیا ہے۔ اب تو حقیقت بیان کرنا یا قلمبند کرنا آ بیل مجھے مارنے کے مترادف بن چکا ہے۔ پاکستان میں اب حقیقی سیاست کی جگہ گالم گلوچ، بدتمیزی اور کردار کشی مکمل طور پر ہمارے اندر سرایت کر چکی ہے۔

اس طرح کا سیاسی کلچر ،الزامات در الزامات یا بڑھک بازی موجودہ حکومت کے دور میں ہی تیز تر ہوتی جا رہی ہے . یا یوں کہا جائے کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں صرف الزامات ،گالم گلوچ ، دعوے، پگڑیاں اچھالنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سیاست عروج پر ہے۔ سیاست کے میدان میں سب ایک ہی پچ پر کھیلتے ہیں کوئی فرشتہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کا دامن پاک و صاف ہے لیکن کچھ سیاست دان اور ان کے کارندے اپنے سیاسی مخالفین کی کردارکشی کرنے میں حد سے تجاوز کرجاتے ہیں اور پر امن سیاسی ماحول قائم رکھنے کے بجائے ذاتیات تک پہنچ جاتے ہیں۔

سیاست کو سیاست کی حد تک لیا جائے تو عوام بھی اس طرح کی سیاسی جگت بازی سے محظوظ ہوتے ہیں لیکن اگر سیاسی سوچ کے برخلاف ذاتیات، الزامات اور طوفان بدتمیزی کے نہ رکنے والے سلسلہ الزامات در الزامات تک پہنچتے پہنچتے ذاتیات تک ہی پہنچ جاتے ہیں جہاں باشعور طبقہ اور عوام ایسے ہی سیاسی شعبدہ بازوں کو ہی قصوروار قرار دیتے ہیں۔ راقم الحروف کیلئے تمام سیاست دان معزز اور قابل احترام ہیں۔ لیکن مجھ ناچیز کی رائے میں سیاست کو سیاست کی حد تک لیا جائے تو سیاست کا ایک اپنا مزہ ہوتا ہے۔ اگر اسی سیاست کو ذاتیات بغض اور عناد کی نظر کر دیا جائے تو سیاست انتقام الزامات اور ذاتی دشمنی میں بدل جاتی ہے جو کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ۔ نصیرآباد میں بھی آج کل سیاسی ماحول الزامات کی زد میں ہے بلکہ سیاست میں الزامات کی بھر مار ہے۔

سیاستدانوں کے اس طرح کا عمل و کردار اور الزامات جہاں جمہوری، اخلاقی و سیاسی اقدار کے خلاف ہے بلکہ سیاست سے اخلاقیات کا جنازہ ہی نکالا جا رہاہے۔ سیاست میں کرپشن، کمیشن، عوام کی فلاح وبہبود کی ترقی میں ناکامی اور عوامی دولت لوٹنے جیسے الزامات مخالفین اپنے حریفوں پر ہمیشہ سے ہی لگاتے رہتے ہیں اور اس طرح کے سیاسی الزامات اور نعروں سے عوام کو اپنا گرویدہ بنا کر عوامی ہمدردی حاصل کی جاتی ہے جوکہ سیاست کا اہم جزو ہے۔ نصیرآباد کے جتنے بھی سیاست دان ہیں کیا وہ فرشتے ہیں؟ کیا انہوں نے اپنے دور حکومت میں کرپشن کمیشن اور ناجائز فائدے حاصل نہیں کئے ہیں؟ کیا نصیرآباد کے ان سیاسی رہنمائوں نے ڈیرہ مراد جمالی کے پوش ایریاز میں سرکاری زمینوں پر قبضے نہیں کیے ہیں؟۔ جس میں جتنی طاقت تھی اتنا ہی قبضہ کیا۔ لیکن نصیرآباد میں ہمیشہ الزامات کی سیاست کرکے صرف اور صرف عوام کو بیوقوف بنانے کی سیاست کی جا رہی ہے۔

نصیرآباد کے عوام اب ان تمام سیاست دانوں کو پہچان چکے ہیں کون عوام کیلئے اور کون اپنے لئے سیاست کرتا ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے نئی تحصیل غفور آباد کے نام پر الزامات در الزامات اور ذاتیات پر مبنی حملوں کاطوفان برپا کیا گیا ہے۔ اس طرح کی سیاست اور الزام تراشیوں کو بڑے زور وشور سے پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ ہمارے اہل قلم اور میڈیا کے دوست بھی ان سیاسی الزامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے صوبے کے قبائلی روایات کو بھی مسخ کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ سیاسی مخالفین ایک دوسرے کی مخالفت کرکے یقینا عوامی ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنے میں ہی کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن سیاسی مخالفت کے بجائے ذاتیات پر حملوں اور الزامات کی سیاست کو نصیرآباد کے عوام ہمیشہ ہی مسترد کرتے چلے آئے ہیں۔ نصیرآباد کے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کی جدی پشتی زمینیں جائیدادیں اور اثاثوں کے بارے میں حلقے کے عوام پہلے ہی سے باخبر ہیں اور عوام جانتے ہیں کہ ان کی کتنی جائیدادیں ملک اور بیرون ملک ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ سیاستدان اپنی عادات و اطوار سے شاید مجبور ہیں وہ اس طرح کے الزامات لگا کر انگلی سے سورج کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں یا یوں کہا جائے کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اور اس کے شیشہ کا گھر یقینا مخالفین کی پتھر سے بھی محفوظ نہیں ہو سکتا۔اس حمام میں سب ننگے کے مصداق سیاست کو سیاستدان صرف سیاست کی حد تک ہی رہنے دیں تو تمام فریقین کیلئے بہتر ہوگا۔ الزامات در الزامات کی سیاست جہاں سیاسی و جمہوری اقدار کیخلاف ہے وہاں سیاست کے بجائے قبائلی دشمنیاں اس طرح سے جنم لیتی ہیں۔ اور پھر ان سیاسی الزامات سے نہ ختم ہونے والے جھگڑے پروان چڑھتے ہیں۔ بلوچستان میں اب تک جاری قبائلی جھگڑوں کی بنیاد بھی ایسے الزامات کی وجہ سے پڑی ہے۔ نصیرآباد میں نئی تحصیل غفور آباد کا قیام کونسی عوام دشمنی ہے؟ کیا نئی تحصیل کے قیام سے علاقے کو فوائدحاصل نہیں ہونگے؟ کیا مذکورہ تحصیل کے لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر نہیں ہونگے؟ جب نصیرآباد میں اس سے قبل علاقے کے نامور لوگوں کے ناموں پر تحصیل اور ضلع کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا ہے؟اگر ہاں تو اب نئی تحصیل کے قیام میں کیا قباحت ہے؟ اگر کسی کو غفورآباد کے نام پر اعتراض ہے تو نام کی تبدیلی پر اعتراض کرے نہ کی ذاتیات اور الزامات کی سیاست کرے۔ کیا کوئی بھی اشو یا مسئلے کا حل الزامات درالزمات سے حل ہوتے ہوئے دیکھا ہے؟۔

اس طرح کی سیاست نصیرآباد کے حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں فریقین کیلئے نیک شگون ثابت نہیں ہو گا۔ بلکہ دونوں فریقین ایک دوسرے پر الزامات درالزمات ذاتی حملے بغض و عناد کی سیاست کو فروغ دیکر عوام کو دست وگریبان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی عوام میں مزیدرسوا کرینگے۔ جب دونوں فریقین دودھ کے دھلے نہیں ہیں تو حزب اختلاف کی قیادت سیاست کو ذاتیات پر لیجا کر عوام میں نسلی لسانیت اور مخالفت کی نہ ختم ہونے والے روایات کو فروغ دیکر نصیرآباد کی سیاسی رواداری اور بھائی چارے کوختم کرکے دشمنی اور عدم برداشت کے ماحول کو پروان نہ چڑھائیں۔ یقینا جب آگ لگے گی تو پھر آگ نہ حزب اقتدار اور نہ ہی حزب اختلاف کو چھوڑے گی بلکہ علاقائی راواداری اور جمہوری روایات کو بھی جلا کر بھسم کر دے گی۔ نصیرآباد میں پہلے ہی برادری ازم قبیلہ پرستی زبان پرستی کی روایات موجود ہیں اس طرح کی سیاسی بھڑک بازی اور نان ایشوز کی سیاست مزید مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اب تک حالات اس نہج پرنہیں پہنچے ہیں کہ واپسی نا ممکن ہو۔ حزب اختلاف اور حزب اقتدار دونوں الزامات در الزامات کی سیاست اور ذاتیات کے بجائے عوامی مفادات کی سیاست کریں اور عوامی منصوبوں علاقائی ترقی وخوشحالی کیلئے اپنی توانائیاں صرف کریں

بلکہ حقیقی سیاست کو فروغ دیکر حزب اقتدار اپوزیشن کی خاموشی غفلت اور عوامی مسائل سے چشم پوشی جبکہ اپوزیشن حزب اقتدار کی عوام دشمن پالیسیوں علاقے کی عدم ترقی عوامی اسکیموں کی عدم فروغ اور حزب اقتدار کے ایوان کی راہداریوں میں نیند کے مزے لینے سے عوام کوشعور و آگاہی فراہم کریں۔مثبت سیاست کو فروغ دینا ہر دو فریقین کی ذمہ داری ہے ایک دوسرے پر الزامات لگانا اپنی منہ میاں مٹھو بننے والا عمل ہے اس طرح کے الزامات سیاست اور علاقے کے مفاد میں نیک شگون ثابت نہیں ہو سکتے اگر سیاست دان ذاتی ترقی بغض و عناد کے عینک سے دیکھنے کے بجائے زمینی حقائق کا تجزیہ کریں اور اصل حقائق عوام کے سامنے لائیں تو پھر انہیں عوامی حمایت حاصل ہو سکتی ہے ۔بہر صورت الزامات کی سیاست میں دونوں فریقین اپنے آپ کو عوامی عدالت مزید رسوا کرنے کا موجب بن سکتے ہیں جو کہ نہ تو سیاسی اور نہ ہی جمہوری روایات کے عین مطابق اور نہ ہی اس طرح کے عمل کو فروغ دے کر سیاست کو عبادت کا مقام دیا جا سکتا ہے۔