|

وقتِ اشاعت :   December 26 – 2021

مغربی بلوچستان میں ایسا کوئی دن یا ہفتہ نہیں گزرتا کہ کسی بلوچ کو ایرانی حکام پھانسی پرنہ چڑھادیں۔ہر دن، ہرماہ اور ہرسال زندانوں اورسرعام سڑکوں پر پھانسیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس مہذب دنیا میں ایران واحد ملک ہے جہاں بلوچوں کو سڑکوں کے چوراہوں اور بازاروں میں عوام کے سامنے پھانسی دی جاتی ہے۔ جو ایک سفاکیت کی نشانی اور درندگی کی علامت ہے۔

جس سے انسانیت تڑپتی ہے۔ایرانی حکمران جلاد پن کی ساری حدود پار کرچکی ہیں۔ کبھی کبھار ایک ہفتے کے دوران پانچ سے زائد افراد کو پھانسی دی جاتی ہے۔ ان پر نام نہاد پاسداران انقلاب کے خلاف بغاوت سمیت مختلف مبینہ جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ الزامات ایرانی حکام کی مرضی اور منشا پر مبنی ہوتے ہیں۔
حال ہی میں دوزاپ سینٹرل جیل میں قید تین بلوچوں کو جیل حکام نے پھانسی دے دی۔ پھانسی پانے والے قیدیوں کی شناخت دوزاپ کے علاقے شیرآباد سے سعد اللہ خرکوہی، عبیداللہ خرکوہی اورمحبوب رخشانی کے نام سے ہوئی ہے۔ سعداللہ اور عبیداللہ بھائی تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ہرسال نام نہاد اسلامی جمہوریہ ایران کی جیلوں میں کم از کم ڈیڑھ سو سے دوسوکے قریب بلوچوں کو پھانسی دی جاتی ہے۔ پھانسیاں خفیہ طورپراور میڈیا کی کوریج کے بغیر دی جاتی ہیں۔
ہمارے پاس ایسی بھی اطلاعات آتی ہیں۔ جس میں ایک ہفتے کے دوران پانچ بلوچوں کو بیک وقت پھانسی دی گئی۔ جن کی شناخت عبدالباسط خشت، بھنام ریکی، شعیب ریکی، مہربان براھوی، حمید میر بلوچ زئی سے ہوئی۔ ان پر ایرانی حکام کی جانب سے پھانسی دیئے جانے والوں پر ایرانی حکومت کے خلاف بغاوت کا الزام اور اسلام شدت پسندی کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔ اس سے قبل اس نوعیت کے کیسز میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نام نہاد ایرانی پاسداران کی جانب سے پھانسی کی سزا پا چکے ہیں۔ پھانسی دیئے جانے والے افراد مغربی بلوچستان کے مختلف علاقوں زاہدان، ایران شہر اور سراوان سے تعلق رکھتے تھے۔ جنہیں مختلف اوقات میں گرفتار کرکے پھانسی دی گئی۔
ہم نے یہ دیکھا ہے کہ ایران کے انسانی حقوق کے اداروں اور مہذب ممالک سمیت عالمی ادارے برائے انسانی حقوق و میڈیا بلوچ نسل کشی و ایران میں بلوچ نسل کش پالیسی پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، جس کے وجہ سے حکومت کو اپنے مخالفین کو کچلنے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ تہران کی سرکار شروع دن سے ہی بلوچ نسل کشی و انسانی حقوق کی پامالی پر عمل پیرا ہے۔ اب تک سینکڑوں بلوچ نوجوان و بزرگوں کو ریاستی اداروں نے لاپتہ کیا ہوا ہے۔ گرفتار کئے گئے افراد کے لواحقین کو ان کے پیاروں کے بارے میں نہیں بتایا جاتا ہے۔ لواحقین کو دوران گرفتاری انکے رشتہ داروں سے ملنے نہیں دیا جاتا اور جس دن پھانسی کا وقت مقرر کردیا جاتا ہے تو لواحقین کو کچھ وقت کے لئے ملاقات کا وقت دیا جاتا ہے اور پھانسی دے دی جاتی ہے، جس کے باعث لواحقین اپنے پیاروں کوالوداع بھی نہیں کہہ پاتے۔
قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود مغربی بلوچستان کے عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ دہائیوں سے جاری استحصال اور بدانتظامی ہے۔
بدقسمتی سے ایران میں مسلک کی بنیاد پر حکومت قائم ہے۔ ایک مسلک کے لئے الگ قوانین اور دوسرے کے لئے الگ قوانین پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ ظاہرسی بات ہے کہ مغربی بلوچستان کی اکثریتی آبادی کا سنی مسلک سے تعلق ہے۔ جس سے بلوچوں کو وہ مراعات حاصل نہیںجو دوسرے مسلک اور نسل کے لوگوں کو حاصل ہے۔ انہیں سیاسی، سماجی، معاشی اور اقتصادی مراعات سے محروم ہیں۔ وہاں روزگار ایک اہم مسئلہ ہے۔ اعلیٰ عہدوں اور سرکاری نوکریوں تک رسائی حاصل کرنا ناممکن ہے۔
بیروزگاری کی بڑھتی شرح کی وجہ سے بلوچ نوجوان، جن میں سے کئی اعلیٰ جامعات سے فارغ التحصیل ڈگری یافتہ ہیں، وہ مغربی بلوچستان اور مشرقی بلوچستان کو جدا کرنے والی ‘‘گولڈ سمڈ لائن’’ پر تیل کا کاروبار کرتے ہیں۔ بارڈر پر تیل کے کاروبار ان کی مجبوری ہے تاکہ وہ اپنے گھر کا چولہا جلائے رکھ سکیں۔ گولڈ سمڈ لائن کے اطراف آباد بلوچوں کیلئے یہ روزگار کا واحد ذریعہ ہے، جس کے بغیر شدید غربت اور بیروزگاری سے لوگ فاقوں پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بارڈر پر تیل کے کاروبار سے جڑے ان بلوچوں کو دونوں اطراف پاکستانی اور ایرانی سیکورٹی فورسز کی جانب سے تذلیل کا سامنا رہتا ہے۔ حالانکہ یہ شکایات عام ہیں کہ سیکیورٹی فورسز ان کاروباری افراد سے بھاری رقم رشوت اور بھتے کی صورت زبردستی وصول کرتے ہیں۔ لیکن اسکے باوجود تنگ کرنے کا سلسلہ نہیں روکا جاتا۔
‘‘گولڈ سمڈ لائن’’ کے قیام سے اب تک ہزاروں بلوچ موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ زندہ رہنے کے لئے اشیا خورونوش اور تیل لاتے ہیں۔ اور انہیں سیکیورٹی اداروں کے اہلکار موت کے گھاٹ اتاردیتے ہیں۔ یہ لائن ایک خونی لائن بن چکی ہے۔
سرحد کے دونوں اطراف رہنے والے بلوچوں نے ‘‘گولڈ سمڈ لائن’’ لائن کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا۔ دونوں اطراف میں ایک ہی خاندان کے لوگ آباد ہیں۔ وہ آپس میں تجارت کرتے ہیں۔ اور یہ تجارت تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے آئینی اور قانونی ہے۔ تاہم ایرانی اور پاکستانی حکام اس تجارت کو غیرقانونی سمجھتے ہیں۔
ایرانی کوسٹل سیکیورٹی کی جانب سے مشرقی بلوچستان کے لوگ جو دوبئی اور خلیج کے دیگر ممالک سے بحری راستوں سے تجارت کرتے ہیں اور ماہی گیر جواپنے سمندری حدود میں مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ انہیں بھی گرفتار کیا جاتا ہے۔ انہیں سخت سے سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ ان کے املاک کو بھی ضبط کیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس یہ بھی اطلاع ہے کہ بے شمار ایسی لانچیں ایرانی حکومت کی تحویل میں ہیں جو دوبئی سے تجارت کے غرض سے واپس آرہی ہوتی ہیں۔ انہیں بین الاقومی سمندری حدود میں تحویل میں لیا جاتا ہے۔ لوگوں کو قید و بند کی سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ اس وقت ایران کی بے شمار جیلوں میں لوگ بند ہیں۔ جبکہ دوسری جانب پاکستانی سفارتخانے کا عملہ بھی ان کی مددکو نہیں آتا جس کی وجہ سے وہ بے بنیاد الزامات کی وجہ سے جیلوں میں قید رہتے ہیں۔ شاید دونوں ممالک (پاکستان اور ایران) کی سرکار کا ایجنڈا ایک ہے کہ بلوچ کو سیاسی معاملات سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں ذریعہ معاش سے بھی محروم رکھا جائے۔ دونوں سرکار کی پالیسیوں کی وجہ سے دونوں ممالک میں بلوچ ایک انسرجنسی کے دور سے گزرر ہے ہیں۔ دراصل یہ انسرجنسیز دونوں سرکار کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہیں۔