سی ایس ایس پاس آفیسر کو جب ایک انگوٹھا چاب ڈکٹیٹ کرے تو انتہائی دکھ ہوتا ہے۔ لیکن یہی حقیقت ہے اور معاشرے کی ترقی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ۔ سیاسی پارٹیوں نے سی ایس ایس کوالیفائڈ آفیسران کو ایک چپڑاسی سا بھی اہمیت نہیں دیا ہے۔ اسے پولیٹیکل انجیئرنگ کہا جاسکتا ہے، ہمارے پورے ملک کا یہی حال ہے آفیسران کی ریموٹ کنٹرول ایم پی ایز اور ایم این ایز کے ہاتھوں میں ہے۔ جب چاہا بٹن دبادیا اور بازی پلٹا دیا۔
اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو سب مسائل کی ایک بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ مثلاً ایک ضلع ڈی سی کے ماتحت ہے۔ ڈی سی کے ذمے ضلع کے تمام امور ہیں۔ سڑکیں، روڑ، اسکولز و دیگر مسائل، بلوچستان کے ہر ضلع میں مسائل کی بھرمار ہے۔ مگر دہائیوں بعدبھی مسائل جوں کے توں ہیں چونکہ ڈی سی جو کہ ایک تعلیم یافتہ شخص ہے اس کے بس میں کچھ نہیں ہوتا۔ اس کی ذرابھر بھی چلتی تو وہ کچھ کرجاتا کیونکہ حقیقی تعلیم یافتہ شخص ترقی پسند لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس انکے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔ جب کوئی سیاسی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو انتقامی کاروائیاں شروع کی جاتی ہیں۔ اگر اس صوبے کے منسٹر اس کام میں جت جائیں کہ فلاں لیویز کانسٹبل کو فلاں جگہ ٹرانسفر کرو۔ اس سوچ کے حامل لوگوں سے عوام کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ صوبے میں ترقیاتی کام کریں گے۔ تمام وزراء یوں ری ایکٹ کرتے ہیں جیسے کہ وہ بلوچستان کے مسائل سے نا آشنا ہیں اگرچہ وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ طلباء احتجاج پر نہ ہوں۔
لیکن سیاسی بصیرت سے محروم قیادت کو ان مظلوموں کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اگر دیتی بھی ہے تو وہ ان کو سننا تک گوارہ نہیں کرتے اور منہ موڑکر چلے جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ حکومت عوام کو جوابدہ نہیں اور نہ ہی انہیں اگلے الیکشن میں ان کوعوام کے ووٹوں کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ یہی ہے کہ یہاں آفیسران خودمختار نہیں جتنی خودمختاری وفاقی آفیسران کو دی گئی ہے اس سے ایک تہائی بھی اگر بلوچستان کے آفیسران کے پاس ہوتی تو مسائل کافی حد تک حل ہوجاتے۔ آئے دن ٹوئٹر اسپیس پر کسی پروگرام میں شرکت کرنے کا موقع ملتا ہے وہاں جب بلوچستان کے مسائل اور حکومتی بے حسی کا ذکر ہوتا ہے تو حکومتی نمائندے کان دھرے سارا کچھ سن کر من ہی من اپنے آپ کو دوشی ٹہراتے ہیں۔ میڈیکل اسٹوڈنٹس کی زندگی دائو پر لگی ہوئی ہے لیکن حکومت کی بے حسی کا عالم تو دیکھیں اتنی احتجاج کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ حکومت نے انتہائی افسوسناک رویہ اپنایا ہوا ہے، جام اور عبدالقدوس بزنجو کی حکومت میں کچھ خاص فرق نہیں۔
فرق صرف اتنا ہے کہ جام غیرضروری ملاقات سے گریز کیا کرتے تھے اور عبدالقدوس کی جہاں ضرورت نہیں وہاں شکتی مان بن کر پہنچ جاتے ہیں۔ حلف اٹھاتے ہی جھاڑو لیکر سڑکوں پر نکل آئے ،اصل میں یہ جھاڑو خزانہ صاف کرنے کے لئے لیا گیا تھا جس کے رکھتے ہی اعلانات کے عوض رقوم کا بٹوارہ شروع ہوگیا۔ حالیہ بارشوں کے بعد پانی وزیراعلیٰ کے گھٹنوں تک تھا اور جناب یہ تو بتانے سے رہے کہ ناقص سیوریج لائن کی وجہ سے پانی سڑک پر کیوں جمع ہے۔ کوئٹہ شہر ابھی تک گندگی کا مظہر ہے اس دکھاوے سے عوام کے دل بہلائے گئے لیکن عملاً کچھ نہیں ہوسکا۔ اس طرح کے بچگانہ حرکات سے عوام کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے توقعات میں اضافے کے باعث آپ ہی مشکلات سے مزید دوچار ہونگے۔ چند دن کی وزارت کا یوں مذاق نہ اڑائیے اس وزارت اس منصب کا کچھ تو خیال رکھا کریں۔ اپنا نہ صحیح عوام کی یوں بے توقیری نہ کی جائے، ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے بچگانہ حرکات اگر اعلیٰ عہدوں پر فائز وزیر کریں تو ان سے باقاعدہ وضاحت طلب کی جاتی ہے اور تسلی بخش صحیح وضاحت نہ کرنے کی صورت میں انکو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ ایسا ملک اور کہاں جہاں وزیروں کو اتنی چھوٹ دی جائے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے 40 ہزار بیوروکریٹس نے غیرملکی شہریت لی رکھی ہے بچے تو انکے باہر ہیں ہی جیسے ہی رٹائرمنٹ کی نوبت آئی اس کے بعد اس ملک کا خدا حافظ ۔