ایک طرف عدم اعتماد کی باتیں گردش کررہی ہیں تو دوسری جانب پیپلز پارٹی نے مارچ کا اعلان کررکھا ہے۔ ق لیگ سے ملاقات کے بعد اپوزیشن ناامیدی کا شکارہے۔ ق لیگ اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ حکومت کے خلاف کھڑی ہوسکے۔ اپوزیشن نے جب سے عدم اعتماد کا شوشہ چھوڑ رکھا ہے تب سے حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ یوں تو انتقامی کاروائیاں روزاول سے ہوتی آرہی ہیں لیکن اب حکومت نے بلاسوچے سمجھنے والا معاملہ اپنا رکھا ہے۔ محسن بیگ کی گرفتاری اور اسکے بعد چند مزید نامور صحافیوں کی گرفتاری کے انکشاف سے ثابت ہوتاہے کہ حکومت ڈری ہوئی ہے۔ کسی طرح اگر اپوزیشن کو ق لیگ کا اعتماد حاصل ہوا تو اس حکومت کی چھٹی کرائی جاسکتی ہے۔ بلوچستان کی سرد سیاست میں یارمحمد رند بہت سرگرم ہیں۔
عاصم کرد اور یارمحمد رند قبائلی جنگ کو ہوادینے کا کام سرانجام دے رہے ہیں بظاہر معاملہ سیاسی ہے لیکن اسے قبائلی شکل دے کر صورتحال کو بدتر کیا جارہا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو ان مسائل سے لاعلم ہیں۔ انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ ان مسائل کے سنگین نتائج سے آگاہ نہیں ہیں۔ بزنجو حکومت کو ظہور بلیدی کے مشورے کے مطابق کام کرنا چاہئے اور کئی کام وہ ان کے مشورے پر ہی کر رہی ہے۔ ظہور بلیدی اپنے حلقے کے لئے کافی ترقیاتی کام کررہے ہیں بلیدہ ٹو تربت روڑ، بلیدہ میں پرائمری اسکولوں کی تعمیرات سے لیکر لائبریری کی فعالی تک دیگر کئی ترقیاتی کام جارہی ہیں۔ ظہور بلیدی نے ہمیشہ اپنے حلقے پر توجہ دی ہے چونکہ انہیں دوبارہ الیکشن وہیں سے لڑنا ہے۔ ایک سیاسی شخص ہمیشہ اپنے اگلے الیکشن کا سوچتاہے جبکہ حقیقی لیڈر ہمیشہ نئی نسل کا سوچتاہے۔ بہرحال بلوچستان سمیت پاکستان میں فی الوقت ایسا کوئی حقیقی لیڈر نہیں جو نئی نسل کا سوچے اس کے برعکس کافی کم رہنما ایسے ہیں جو اگلے الیکشن تک کا ہی نہیں سوچتے۔
ایسا سیاسی رہنما جو اگلے الیکشن کا سوچتاہے وہ اجتماعی ترقیاتی کام کرتا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیئے کہ عبدالقدوس بزنجو بجائے اسکے کہ اپنے حلقے کے لئے ترقیاتی کام کرتے لیکن کئی دہائیوں سے بند اسکولوں کی فعالی تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ عبدالقدوس جب سے برسرِاقتدار آئے ہیں انہوں نے آواران کا دورہ کرنا تک گوارہ نہیں کیا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو نے آواران کو پسماندہ رکھاہے تاکہ آواران میں الیکشن کے قریب آکر محض 2 ہزار کے عوض لوگوں کے ووٹ خریدسکیں۔ اس کی بھی نوبت شاید کبھی کبھار آتی ہو یعنی محض کہہ دینے کی دیر ہے پسماندہ معاشرے میں نا کہنے کی جرات نہیں کی جاسکتی۔ گزشتہ دنوں آواران میں ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی تھی جس میں طلبا نے آواران کے 156 غیرفعال اسکولوں کی بحالی، دو سال سے بند آواران ٹاون لائبریری کی بحالی سمیت 950 خالی اساتذہ کی پوسٹوں پر انٹرن شپ کی بنیاد پر ٹیچرز کی بھرتی کا مطالبہ کیا۔
جو شخص اپنے گھر کو ترقی نہیں دے سکتا وہ پورے خاندان کو کیسے ترقی کی جانب گامزن کریگا؟ موجودہ حالات میں اگر دیکھا جائے تو وفاق میں بلوچستان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلوچستان کے مسائل میں ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے۔ صوبائی حکومت میں بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ایک غیر مرئی شخص کو وزات اعلیٰ کے منصب پر جن وزیروں نے بٹھایا ہے اب وہ خود بھی مایوسی کا شکار ہیں۔جو صحیح معنوں میں عوامی نمائندے ہیں ان میں سے ایک بھی حکومت کا حصہ نہیں ہے۔