ملک میں معاشی بحران مزید گھمبیر ہونے کا خدشہ ہے، اوگرا کی جانب سے ایک بار پھر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا عندیہ دیا گیا ہے، اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزیدبڑھیں گیں تو یقینا اس کا بوجھ براہ راست عوام پر ہی آئے گا جبکہ ملک کی سیاسی شخصیات ،تاجر برادری پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ایوانوں میں بیٹھے حضرات کی گاڑیوں کا پیٹرول سرکاری خزانے سے آتا ہے، ان کے دیگر مراعات بھی عوام کے ٹیکس سے پورے ہوتے ہیں۔ غریب عوام کے لیے سب اچھااور خوشحالی کے دعوے خواب بنتے جار ہے ہیں۔ دوسری جانب اہم عہدوں پر فائز معیشت کو چلانے والے بتارہے ہیں کہ ملک میں معاشی ترقی کی ہوا چل پڑی ہے سب کچھ بہتر ہے اور مزید تبدیلی آئے گی۔ گزشتہ روز ایک غیرملکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیرخزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے ملکی معیشت مستحکم ہوئی۔ رواں سال ملکی معیشت کی شرح نمو5 فیصد سے نیچے رہے گی۔
اقتصادی ترقی 22-2021 میں 4.5 سے 5 فیصد کے درمیان رہے گی۔ آئندہ مالی سال معاشی شرح نمو 6 فیصد ہونے کا امکان ہے۔ بجلی کی کھپت میں 13 فیصداضافہ ہوا، کارپوریٹ منافع ریکارڈ بلندی پرہے۔زرعی شعبے، نجی اورہائوسنگ فنانس کیلئے قرضوں نے معیشت کوفروغ دیا۔ برآمدات اورترسیلات زربڑھ رہی ہیں۔ محصولات کی وصولی میں 32 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔شوکت ترین نے کہا کہ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ بھیک مانگنے والے پیالے کو توڑنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف کا 50 سال کا قرض ختم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان ای ایس جی بانڈ اور تجارت سے قرض ختم کرنا چاہتا ہے۔پائیدار اقتصادی ترقی کے راستے میں خسارے کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ آنے والے بجٹ میں جی ڈی پی 5.25 فیصد لانے کا ہدف ہے۔ جی ڈی پی بڑھانے کا مقصد ملک کی اقتصادی ترقی کو تیز کرنا ہے۔متوازن ترقی شروع کرتے ہیں تو آئی ایم اف کی ضرورت نہیں ہوگی۔ 6 ارب ڈالر کا قرضہ پروگرام دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ پاکستان نے قرض کی شرائط کو پورا کرنے کیلیے اقدامات کیے ہیں۔آئی ایم ایف پروگرام 2019 سے تعطل کا شکار تھا۔
وزیراعظم آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ کے سخت خلاف رہے ہیں۔اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان کا ایک تقریب کے دوران کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری ہے اور اسی وجہ سے شرائط ماننا پڑتی ہیں۔ملک کی معیشت کمزور ہو گی تو دفاع بھی کمزور ہو گا اس لیے مجبوری کی حالت میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہم نے ملک کو معاشی طور پر مستحکم نہیں کیا۔ مشکل میں آئی ایم ایف کی شرائط ماننا پڑتی تھی اور اگر آئی ایم ایف کی شرائط مانیں تو سیکیورٹی متاثر ہوتی ہے۔ بڑی محنت سے نیشنل سیکیورٹی پالیسی کومرتب کیا گیا ہے۔بہرحال جو باتیں کی جارہی ہیں صرف ماضی میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ حکمران کیا کہتے تھے کہ ملک میں معاشی مسائل کی وجہ کیا ہے اور اس کے ذمہ دار کون ہیں کیونکہ یہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ قرض لے کر عوام پر بوجھ ڈالاجارہا ہے ماضی کے حکمرانوں نے عیاشیاں اور کرپشن کی ہیں تو اب بہتری آنی چاہئے ۔
جب قرض نہ لینے کا دعویٰ کیاجارہا تھا اسے ہی پورا کیاجاتا مگر تمام عمل برعکس ہی ہورہے ہیں ۔آج تاریخ کی بلند ترین سطح پر ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری ہے عام لوگوں کا جینا مشکل ہوکر رہ گیا ہے مزید طفل تسلیوں سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ عام لوگوں کو معاشی تبدیلی اور فوائد نظر آنے چاہئیں جو اب تک زمین پر دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔