|

وقتِ اشاعت :   March 16 – 2022

وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جب سے عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی گئی ہے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا ہوئی ہے۔ حکومت اوراپوزیشن نے اب تک درجنوں پریس کانفرنس ،مارچ اور جلسے کئے ہیں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لیے سیاسی جوڑ توڑ بھی زوروں پرہے۔ پی ٹی آئی کے اراکین سمیت حکومتی اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے اہم ملاقاتوں کے دوران کچھ لو، کچھ دو پر بات کی ہے جبکہ پنجاب میں بھی تبدیلی کے حوالے سے فیصلے کئے گئے ہیں۔

دوسری جانب حکومت بھی اپنے اتحادیوں کے ساتھ معاملات طے کرنے میں مصروف ہے ۔وزیراعظم عمران خان کافی عرصے بعد میدان میں اترے ہیں پارٹی کے متعدد اجلاس کی صدارت کرچکے ہیں، اتحادیوں سے ملاقاتوںکا بھی سلسلہ جاری ہے ساتھ ہی بڑے بڑے جلسوں کی قیادت بھی خود کررہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان مکمل پُرامید دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ اپوزیشن کو ہر محاذ پر شکست دینگے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر لوگ ان کے ساتھ ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن بھی یہی دعویٰ کررہی ہے۔ سیاسی حالات کاجائزہ لیاجائے تو پہلے حکومتی اتحادیوں کی ترجیحات اور مفادات کو دیکھنا ضروری ہے واضح رہے کہ گزشتہ ساڑھے تین سالوںکے دوران پی ٹی آئی کے اپنے اتحادی نالاں دکھائی دیئے ہیں ۔وزیراعظم سے ملاقات کا معاملہ ہو یا پھر دیگر حکومتی مسائل ان کا شکوہ یہی رہا ہے کہ انہیں ایک اتحادی کی طرح سے ڈیل نہیں کیا گیا ۔

وزیراعظم سے ملاقات کرنے کے لیے انہیں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا مطالبات توکجا اپنی بات رکھنے کا موقع بھی نہیں ملتا تھا جبکہ بیوروکریسی کے رویہ پر گلے شکوے کرتے رہے ہیں۔ اب اتحادیوں کی پوزیشن اس قدر مضبوط ہوگئی ہے کہ وہ پچ کی دونوں جانب کھیل رہے ہیں ایک طرف وزیراعظم اور ان کی جماعت کے اہم وزیروں سے ملاقاتیں کرکے تسلیاں دے رہے ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن کو بھی خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ یہ ان کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ اپنے فائدے حاصل کرسکیں۔ ق لیگ کے لیے پنجاب اہم ہے اور اس وقت اس کی نظریں پنجاب کی وزارت اعلیٰ اور وفاق کے اہم عہدوں پر لگی ہوئی ہیں جو ن لیگ کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے ہی پورے ہوسکتے ہیں اس لیے اسے نظرانداز نہیں کیاجاسکتا کہ ق لیگ کے لیے اپوزیشن اسپیس رکھے گی تو وہ اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے حال اور مستقبل کے حوالے سے ن لیگ کے ساتھ معاملات کو سیدھاکرے گی جس میں پُل کا کردار پیپلزپارٹی ادا کرے گی کیونکہ ماضی میں ق لیگ کو پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں اہم عہدوں سے نوازا ہے ۔

اسی طرح ایم کیوایم پاکستان کی تمام تر ترجیحات سندھ کے شہری علاقوں خاص کر کراچی ہے جواس کا بیس ہے جہاں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اس لیے وہ پیپلزپارٹی کے ساتھ چلنا زیادہ پسند کرے گی تاکہ انہیں شہری علاقوں میں نہ صرف انتظامی حوالے سے فوائد حاصل ہوسکیں بلکہ جو کراچی میں گزشتہ انتخابات میں ایم کیوایم کو بہت سی نشستوں پر شکست ہوئی ہے اس میں پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے یہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے ایم کیوایم پیپلزپارٹی کو ہی ترجیح دے گی۔ رہی بات بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی تو مرکز میں جس کی حکومت بنتی ہے وہ اسی کے ساتھ ہی چلنے کو ترجیح دینگے ،اس لیے حکومت کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے اتحادیوں کی ناراضگی کو ختم کرکے مستقبل کی راہ ہموار کرپائے گی یہ چند دنوں میں واضح ہوجائے گا۔