پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے لیے پنجاب اسمبلی کا آج ہونے والا اہم اجلاس تاخیر کا شکار ہے۔
پنجاب اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی زیر صدارت آج ساڑھے 11 بجے شروع ہونا تھا تاہم حکومتی اراکین کے اسمبلی ہال نہ پہنچنے کے باعث اجلاس تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔
100 سے زائد اپوزیشن اراکین بینچوں پر موجود ہیں جبکہ اسمبلی اراکین کو ایوان میں بلانے کے لیے گھنٹیاں بجائی جا رہی ہیں۔ کچھ حکومتی خواتین اراکین اسمبلی میں اپنے ساتھ لوٹے بھی لے آئیں اور انہوں نے لوٹے لوٹے کے نعرے لگانا شروع کر دیے جس کے باعث ایوان میں شور شرابہ شروع ہو گیا۔
پنجاب اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے اراکین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری اور پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچ چکے ہیں جبکہ حمزہ شہباز بھی اپوزیشن اتحاد کے ساتھ اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچ گئے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے رینجرز کو تعینات کیا گیا ہے۔
وزارت اعلیٰ کے لیے حمزہ شہباز مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے امیدوار ہیں جبکہ چوہدری پرویز الٰہی پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے متفقہ امیدوار ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد 371 ہے اور وزیر اعلیٰ بننے کے لیے 186 ووٹ درکار ہیں۔
دونوں امیدواروں کی جانب سے اپنی اپنی جیت کے متضاد دعوے کیے جا رہے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے 189 ارکان جبکہ حمزہ شہباز شریف نے 200 سے زائد ارکان اسمبلی کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے۔
پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد 183 ارکان ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے ارکان کی کل تعداد 166 ہے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ ق کے ارکان کی تعداد 10، پی پی کے 7 ارکان ہیں جبکہ ایوان میں اس وقت آزاد ارکان کی تعداد 4 ہے اور راہ حق پارٹی کا ایک رکن ہے۔
ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے ناراض ارکان کی تعداد 21 ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے 5 ارکان اپنی جماعت سے ناراض ہیں۔