2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں دس لاکھ لوگ بطور فری لانسر کام کر رہے ہیں۔ معیشت کو مستحکم کرنا بے روزگاری کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔ اور بے روزگاری کے خاتمے کا واحد حل ٹیکنیکل اسکلز ہیں۔ موجودہ دور میں معیشت کا انحصار ٹیکنالوجی سے آراستہ افرادی قوت پر ہے۔ محرومیاں اتنی ہیں کہ ہم ضروریات کی چیزوں سے ہٹ کر سوچ نہیں سکتے۔ جب معیشت کی بات کی جائے تو سب سے پہلے تیل، خام مال اور دیگر چیزیں آتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ معیشت کو کھڑی کرنے کے ذرائع ہیں یعنی ہر وہ چیز جو بیرون ملک ایکسپورٹ کی جاتی ہے مستحکم معیشت کی ضامن ہیں۔
جدید دنیا سے ہمکنار ہونا اسی صورت ممکن ہے کہ نوجوانوں کو ٹیکنیل اسکلز سے آراستہ کیا جائے۔ پاکستان میں حکمران کبھی لانگ ٹرم منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے اس ملک میں ابھی تک ایسے ادارے قائم نہیں کئے جاسکے جو معیاری تعلیم فراہم کرسکیں۔ آج کے اس جدید دور میں پاکستان میں بے روزگاری عروج پر ہے اس کے برعکس ٹیکنالوجی سے آراستہ افراد بھی ناپید ہیں۔ ملکی یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل طلبا آج ملکی اور غیر ملکی سڑکوں پر عمران خان کے سازشی خط کے بیانیے کو لیکر نعرے بلند کررہے ہیں۔ یہ معیار ہے ہمارے تعلیمی اداروں کا۔ ملک میں رہنا نہیں چاہتے لیکن ایک نام نہاد صادق و امین کے حق میں نعرے محض ان کے جذباتی تقاریر کے پیش نظر بلند کیے جارہے ہیں۔ تقریں ہمیشہ جذباتی اور کم تعلیم یافتہ لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔ باشعور اور صاحب علم انسان ہمیشہ عمل، کردار اور نتائج کو اہمیت دہتے ہیں۔پی ٹی آئی نے گالم گلوچ کو ملک کاکلچر بنادیاہے۔
پہلے مخالفین پر تنقیدکی جاتی تھی اب سیدھا گالم گلوچ کا راستہ اپنایا جاتاہے۔ سوشل میڈیا میں پھیلی عمران نیازی کی ٹیموں کا بھی یہی حال ہے ۔ ایک رہنما کی اخلاقیات اور رویہ کے اثرات کس قدر اسکے حامیوں پر پڑتے ہیں۔ پاکستانی قوم سوچنے کے صلاحیت سے محروم ہیں وہ کبھی سنجیدہ ہوکر سوچنے کی زحمت نہیں کرتے اس لئے وہ حقیقت سے آشنا نہیں ہوتے اور یوں عمران نیازی جیسے لیڈر انہیں باآسانی تقاریر سے لبھالیتے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے دورہ کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے جو باتیں کیں اگر ان کو عملی جامہ پہنایا جائے تو بلوچستان کے عوام کے احساسِ محرومیوں کو کسی قدر دور کیا جاسکتا ہے۔ یہاں کے باسی باتیں سننے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اب انہیں صرف عملی کارکردگی سے ہی قائل کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال ہم وزیراعظم شہباز شریف کے تحفے یعنی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے منتظر رہیں گے۔ توقع ہے کہ یہ محض باتیں نہیں ہونگی ان پر عملی اقدامات کی جائیں گی۔