اس وقت ملک میں سیاسی صورتحال اپنے معمول پر نہیں آرہی ہے سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی جاری ہے ایک طرف پی ٹی آئی تو دوسری جانب پی ڈی ایم ہے ، الزامات لگانے کا سلسلہ بھی جاری ہے یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد جلسے میں ایک مبینہ خط کو لہراتے ہوئے کہاکہ ملک کے اندربیرونی مداخلت کے ذریعے حکومت کو تبدیل کرنے کی سازش کی جارہی ہے جس میں اپوزیشن آلہ کار بنی ہوئی ہے بقول عمران خان کہ امریکہ چاہتا ہے کہ عمران خان کو ہٹایا جائے کیونکہ میں انہیں قابل قبول نہیں ہوں اگر ایسا نہ ہوا تو بہت ہی سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی ہیں ۔اس کے بعد عدم اعتماد کی تحریک کے روز ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے رولنگ دیتے ہوئے اس تحریک کو بیرونی سازش قرار دیا اور تحریک کو مسترد کیا ۔
ان تمام حالات کے پیش نظر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا اور تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی جائے، اسپیکر رولنگ کو کالعدم قرار دیا گیا جسے بظاہر پی ٹی آئی کی حکومت نے قبول کیا مگر ساتھ ہی عمران خان نے افسوس کا اظہاربھی کیا اورنئی بننے والی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار سمیت اتوار کے روز احتجاج کی کال بھی دیدی ۔ان تمام تر سیاسی حالات سے یہی لگ رہا ہے کہ معاملہ آگے چل کر مزید گھمبیر ہوگا سیاسی عدم استحکام اپنی جگہ رہے گا جس سے ایک ایسا ماحول پیدا ہوگا کہ پورے ملک میں احتجاج ہونگے یقینا اس کے اثرات لازمی پڑینگے خاص کر معیشت کے حوالے سے انتہائی خراب اثرات سامنے آئینگے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی پی ٹی آئی نے چیلنج کردیا ہے کہ یہ پارلیمان میں مداخلت ہے قانونی اور سیاسی جنگ اس وقت جاری ہے مگر ملک کے اندر اس وقت آئینی بحران موجود ہے کوئی نظام کام نہیں کررہا ہے، ایک مستحکم حکومت وجود نہیں رکھتی جس کے خلاف ان کی اپنی جماعت کے بیشتر ارکان نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے مگر عمران خان نے آخری گیند تک لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب کیا یہ تمام تر سیاسی حالات اورآئینی بحران ملک کے مفاد میں ہے
ہرگز نہیں کیونکہ پاکستان دیگر ممالک کی نسبت معاشی حوالے سے کمزور ہے تو دوسری جانب دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات پر اس مبینہ الزام کے بعد حالات بہتر ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ جس آئین اورقانون کی بالادستی کی بات کی جاتی ہے اس پر عمل تو نہیں کیاجارہا ہے پارلیمان کی جنگ کو خود ہمیشہ سیاستدانوں نے سپریم کورٹ کی دہلیز تک پہنچایا ہے اگر سیاسی جماعتیں خود پارلیمان کے تقدس کو برقرار رکھتے تو شاید نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی مگر جو کچھ ہورہا ہے دنیا دیکھ رہی ہے۔ اس سیاسی عدم استحکام سے سرمایہ کار بھی پریشان ہیں کیونکہ معاشی پہیہ رُ ک گیا ہے جبکہ دیگر ممالک بھی سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے ان حالات میں گریز کرینگے لہٰذا اس وقت ملک کے مفادات کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے اگر اسی طرح معاملہ چلتا رہا تو یقینا نتائج خطرناک نکلیں گے سیاسی جماعتوں کی جنگ پارلیمان سے نکل کر گلی محلوں میں داخل ہوجائے گی پھر تو انارکی جیسے حالات پیدا ہونگے جس کے ذمہ دار وہی ہونگے جنہوں نے یہ حالات پیدا کئے۔
اب بھی وقت ہے کہ پارلیمان کے تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے آئین اور قانون کے ذریعے معاملات کو چلایاجائے تاکہ ملک میں سیاسی استحکام آسکے جہاں تک مبینہ خط کا معاملہ ہے تو اسے عدالت میں پیش کرنا خود حکومت کی ذمہ داری بنتی تھی کیس کی سماعت کے دوران خط کو پیش نہیں کیا گیا، ڈپٹی اٹارنی جنرل پہلے مستعفی ہوچکے تھے جبکہ سماعت کے دوران حکومت کے دفاع سے اٹارنی جنرل نے انکار کیا تھا، یہ حکومت کے پتے تھے انہیں خود شو کرنا چاہئے تھا۔ بہرحال اب جوکچھ ہورہا ہے اس سے ملک کو ہی نقصان پہنچ رہا ہے مزید اس معاملے کو طول دیا گیا تو یقینا حالات معمول پر آنے کی بجائے مزید خراب ہونگے ۔