|

وقتِ اشاعت :   October 3 – 2015

کوئٹہ :  جمعیت علماء اسلام کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی و اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا ہے کے بلوچستان میں حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی نفاذ ہے یا تعلیمی پستی سمجھنے سے قاصر پنجاب حکومت نے انڈومنٹ فنڈ سے طلبا میں تعلیمی وظائف کی سالانہ رقم 2 ارب روپے سے بڑھا کر 4 ارب روپے سالانہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ بلوچستان کے حکومتی شخصیت کا بیٹا تعلیمی نظام پر عدم اعتماد کرتے ہوئے کچھ دونوں میں اسلام آباد کے برٹش ہائی کمیشن میں تعلیمی ویزے کے حصول کیلئے انٹرویو کیلئے پیش ہوکر صوبے کو اپنے حکمران والد صاحب کے ساتھ خیرباد کہہ دیں گے اور لندن کی یخ ہواؤں کا رخ کرینگے جبکہ انکا والد بدستور غریبوں کے بچوں کو صوبے تعلیمی نظام کی بہترین ہونے کی یقین دہانیاں کراتے رہے گئے یہ بات انہوں نے بات چیت کرتے ہوئے کہی‘انہوں نے کہاکہ ایمرجنسی ہمارے صوبے میں نفاذ عمل ہے یعنی ہم نے بلوچستان انڈومنٹ فنڈ کیلئے ہماری حکومت 5 ارب روپے کی رقم مختص کی تھی وہ بھی ایسے حالات میں حکومت نے اس وقت تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان بھی نہیں کیا تھا جس کی آمدنی ہم اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے مختص کر چکے ہیں تعلیمی اصلاحات سے محروم سیاسی حکومتی سوچ نے سکریٹری سیکنڈری ایجوکیشن کو جب اس منصوبے کا سربراہ مقرر کیا گیا تو اس کے حکم سے سالانہ بچوں اس سے 15 سو روپے طلبا کو دینے کا اعلان کر کے اس پسماندہ صوبے کی بچوں کی خودی کو اپنے پاوں تلے روندا ہے لیکن کسی کو اس بات کا احساس نہیں ہوا پندرہ سو روپے سے تو طلباء صرف چاول چھولے کھا سکتے ہیں نہ تعلیم کا حصول انہوں نے کہا کہ انکو معلوم ہوا ہے کہ کہ تعلیمی اصلاحات کے دعویدار حکومت کے حکومتی کے اپنے بیٹے نے بلوچستان کے تعلیمی نظام پر عدم اعتماد کرتے ہوئے بلوچستان کو خیرباد کہتے ہوئے تعلیم کے حصول کیلئے لندن میں داخلہ لے لیا ہے