پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 26 جون کو منشیات کے استعمال اور اس کی اسمگلنگ کی روک تھام کا عالمی دن منایا جاتاہے۔ منشیات سے پاک بین الاقوامی معاشرے کے مقصد کے حصول کے لئے کاروائی اور تعاون کومضبوط کرنے کے عزم کے اظہار کے طور پر 7 دسمبر 1987 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کے زریعے اس دن کو منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد منشیات جیسی ناسور کے متعلق لوگوں میں بیداری پیدا کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (UNODC) کی ورلڈ ڈرگ رپورٹ 2021 کے مطابق دنیا بھر میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد تقریباً 27 کروڑ 50 لاکھ ہے جب کہ 3 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد منشیات کے استعمال کے عوارض کا شکار ہوئے ہیں۔
دنیا بھر میں ہیروئن ، کوکین، چرس، بھنگ، آئس، کرسٹل میتھ اور دیگر نشہ آور چیزوں کے استعمال سے سالانہ کئی لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ 2010ء سے2019ء کے درمیان منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 22فیصد اضافہ ہوا، جس کی وجہ عالمی آبادی میں اضافہ ہے۔ دنیا میں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے لیکن اس کا علاج بھی ممکن ہے۔
صرف آبادیاتی تبدیلیوں کی بنیاد پر، موجودہ تخمینوں کے مطابق 2030ء تک عالمی سطح پر منشیات کا استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد میں 11فیصد اضافے کا خدشہ ہے جبکہ افریقا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی کے باعث 40فیصد تک اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے منشیات کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 70لاکھ سے زائد افراد نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔ ملک میں کیمیکلز والے نشے کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے، جن میں ہیروئن، کوکین اور آئس کا نشہ قابل ذکر ہیں۔ دیہات کے مقابلے میں شہری آبادی میںمنشیات کے استعمال کی شرح زیادہ ہے۔ ملک بھر میں ہر سال اربوں روپے مالیت کی منشیات استعمال کی جاتی ہیں۔ منشیات استعمال کرنے والے افراد ہر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔حتیٰ کہ اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم(جن کی عمریں 13سے 25سال کے درمیان ہیں )بھی منشیات کی لعنت کا شکار ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران نوجوان آئس جیسے خطرناک اور جان لیوانشے میں زیادہ مبتلا نظر آئے ہیں۔
اائس یا کرسٹل نامی یہ نشہ میتھ ایمفٹامین کیمیکل سے بنایا جاتا ہے۔ نشے کے عادی افراد آئس کو انجکشن کے ذریعے بھی جسم میں داخل کرتے ہیں۔اس حوالے سے نوجوانوں میں بڑھتی بے چینی اور ڈپریشن کی وجوہات جاننے کے ساتھ ان کا سدباب بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، صحت مند سرگرمیوں سے متعلق ترغیب دے کر انھیں اس لت میں مبتلا ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے سیاسی و مذہبی جماعتوں، سماجی تنظیموں، تعلیمی اداروں اور والدین کے ساتھ ساتھ میڈیا، ڈاکٹرز اور میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
دنیا کی آبادی بڑھنے کے ساتھ منشیات میں مبتلا افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے البتہ بلوچستان میں صورتحال اسکے برعکس ہے یہاں حکومت کی عدم توجہی اور صفر کارکردگی کے باعث منشیات کی اسمگلنگ اور منشیات کے عادی افراد میں حددرجہ اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان منشیات اسمگلنگ کے ایک عالمی روٹ کا حصہ ہے۔ بلوچستان کے سرحد میں واقع ایران، افغانستان دنیا میں منشیات کی پوست کاشت کرنے میں سرِفہرست ہیں۔ اس لئے اس وقت بلیدہ، پنجگور، گوادر اور بلوچستان کے باقی اضلاع میں نا صرف منشیات کی اسمگلنگ بلا کسی روک ٹوک کے جاری ہے بلکہ منشیات جیسی لعنت وبا میں لوگ مبتلاہوتے جارہے ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت دس لاکھ کے قریب افراد منشیات میں مبتلا ہیں۔ تاحال حکومت کی جانب سے منشیات کے خلاف کوئی ٹھوس کاروائی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے۔ سیاسی رہنمائوں کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں جیسے وہ خود ہی نوجوانوں کو اس دلدل میں دھکیلنے میں شریک ہیں ان کی اس خاموشی سے یہی اخذ کیا جاسکتا ہے۔