|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2022

جاری ہے
الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں دو دہائیوں میں دو ہزار اَرب ڈالر کے عسکری اخراجات کیے۔ اس کے باوجود امریکہ کو افغانستان سے آبرومندانہ انداز میں بھاگنے کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے۔ طالبان کے ساتھ قطر میں ہونے والا معاہدہ دراصل امریکہ کی جانب سے اعتراف شکست تھا۔ وہ تمام تر مقاصد میں بُری طرح ناکام ہوئے۔ نہ تو وہ اسلامی بنیاد پرستی کا خاتمہ کرسکے، نہ افغانستان کی تعمیر نو اور نہ ہی ایران، روس اور چین کو قابو کر سکے۔ طالبان کے ساتھ ہونے والے تمام تر مذاکرات کے دوران اشرف غنی کی حکومت کو امریکہ نے اس سارے عمل سے بے خبر یا دور رکھا جو امریکیوں کی بیس سال میں تعمیر کی گئی افغان حکومت کے بارے ان کے حقیقی رویوں اور وقعت کی غمازی کرتا ہے۔کیونکہ ان کو افغان حکومت کی حیثیت اور طاقت کا پتہ تھا۔
جیسے ہی امریکیوں نے انخلا شروع کیا تو افغان حکومت ریت کے گھروندوں کی مانند ڈھنا شروع ہوئی۔ تین لاکھ پر مشتمل افغان فوج طالبان کی پیش قدمی کے سامنے کوئی مزاحمت پیش نہ کرسکی۔ ایک طرف بے تحاشا کرپشن اور بد انتظامی نے افغان فوج کو کھوکھلا کر دیا تھا۔ تقریباً آدھی فوج تو صرف کاغذوں میں وجود رکھتی تھی جن کی تنخواہیں حکام بالا ہڑپ کر جاتے تھے۔ اکثر اوقات فوج سامان رسد نہ پہنچنے کی وجہ سے ہتھیار ڈال دیتے تھے۔ سپاہیوں کو خوراک اور دیگر رسد کے لیے افسران کو رشوت دینا پڑتی تھی۔ دوسری طرف سیاسی قیادت (وار لارڈز اور سابقہ مجاہدین) اور حکومت کسی قسم کی مزاحمت کا سوچ بھی نہیں رہے تھے۔ انہوں نے اپنے تئیں طالبان سے مراسم استوار کیے ہوئے تھے کیونکہ وہ خود مختلف علاقائی طاقتوں کے پراکسی تھے۔ مثلاً ہرات کے وار لارڈ اسماعیل خان نے شروع میں کچھ مزاحمت کا مظاہرہ کیا لیکن تہران میں اپنے آقائوں کے حکم پر طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ بعد میں وہ ایران فرار ہوا۔ صوبوں کا اس تیزی سے سقوط کرنا دراصل وارلارڈز اور قبائلی عمائدین کا طالبان کے ساتھ پس پردہ سفارت کاری کی وجہ سے تھی۔ اس انتشار کی کیفیت میں طالبان کی پیش قدمی کے سامنے صدر اشرف غنی مکمل بے بس تھا۔ عالمی مالیاتی اداروں کے اس سابقہ آفس کلرک سے اس سے زیادہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ ایک مضبوط مرکزی قیادت کی غیر موجودگی میں تمام صوبوں کے کمانڈرز ایک کے بعد ایک طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالتے گئے۔ 15اَگست 2021ء کو صدر اشرف غنی خصوصی طیارے میں سوار ہوا اور مبینہ طور پر لاکھوں امریکی ڈالروں کے ساتھ ملک سے فرار ہوا۔ طالبان کابل میں داخل ہوئے اور امریکی انخلا کے لیے مختص دن یعنی 31اَگست سے پہلے ہی کابل پر قابض ہوئے۔
دنیا کے ایک رجعتی ٹولے کے ہاتھوں امریکہ کی شرمناک شکست پاکستان، ایران، روس اور چین کی کمک کے بغیر ناممکن تھی۔ اس بار کابل پر طالبان کا قبضہ تقریباً بغیر کسی خون خرابے کے مکمل ہوا کیونکہ درج بالا ریاستوں میں ایک ہم آہنگی تھی۔ امریکی جارحیت کے مقاصد میں سے ایک انہی ریاستوں کو لگام دینا تھا۔ اس مقصد کے لیے ہی امریکہ نے بعد میں داعش کو تخلیق کیا تھا۔
طالبان کی اس رجعتی فتح کے بعد عوام کے لیے مصیبتوں کے ایک اور دور کا آغاز ہوا ہے۔ جب امریکی سامراج اپنی تمام تر معاشی اور عسکری وسائل کے باوجود افغانستان میں ایک صحت مند ریاست تعمیر نہیں کر سکی تو طالبان جیسا رجعتی گروہ ، جن کے پاس نہ کوئی معاشی وسائل ہیں اور نہ ہی امریکیوں سے مختلف معاشی پروگرام، یہ کام کسے کرسکتا ہے؟ کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد ملک معاشی طور پر محصور ہوگیا ہے۔ معاشی پابندیاں لگنے کی وجہ سے ملک عالمی منڈی سے کٹ چکا ہے جس کے نتیجے میں تھوڑی بہت رسمی معیشت کا بھی جنازہ نکل گیا ہے۔ طالبان سے پہلے افغانستان کی 75فیصد معیشت بیرونی امداد پر چلتی تھی۔ سابقہ حکومت کے انہدام کے ساتھ ہی تمام تر بیرونی امداد رُک گئی نتیجتاً تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بے روزگاری میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ جہاں تک طالبان کی حمایت کرنے والی علاقائی ریاستوں (چین، روس، ایران، پاکستان) کا تعلق ہے تووہ کبھی بھی افغانستان کو سابقہ دور میں ملنے والی امداد کی جگہ نہیں لے سکتے۔ چین کی نظریں ملک میں موجود لیتھیم ، کاپر اور دیگر معدنیات پر ہے۔ چین نے سرمایہ کاری کا بھی وعدہ کیا ہے لیکن غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے ہچکچا رہی ہے۔ ایران، پاکستان اور روس پہلے ہی معاشی بحران سے جوجھ ر ہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سالوں میں پانچ لاکھ سے زائد افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس سال 97فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے گر جائے گی۔ سوشل میڈیا پر سابقہ صحافیوں اور میڈیا کارکنان کی تصاویر وائرل ہیں جس میں وہ گلیوں میں پھل بیچ رہے ہوتے ہیں۔ کابل میں ہر دن خیرات تقسیم کرنے والوں کے گرد لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ روٹی کے ایک ٹکڑے کی خیرات کے لیے بیکریوں کے سامنے لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔طالبان کے معاشی پروگرام کے عین مطابق ملک میں بھکاریوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ طالبان کے پاس بھی امداد مانگنے اور خیرات کے علاوہ کوئی اور معاشی منصوبہ نہیں۔ 95فیصد افغان خاندانوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ بچوں کے تحفظ کے عالمی ادارے Save the Childrenکی فروری 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، ’’اگست 2021ء سے 82فیصد افغان خاندانوں کی آمدنی ختم ہوچکی ہے۔ ہر پانچ میں سے ایک خاندان اپنے بچوں کو قلیل اجرت کے لیے کام پر بھیجتے ہیں جبکہ 7.5فیصد خاندانوں کا کہنا ہے کہ ان کو خیرات بھی مانگنا پڑتا ہے۔‘‘
ایک طرف معاشی وسائل اور قابل عمل معاشی پروگرام کی غیر موجودگی میں طالبان سماج پر اپنی رجعتی عورت دشمن اخلاقیات لاگو کر رہے ہیں۔ لڑکیوں پر تعلیمی اداروں کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ مختلف محکموں میں کام کرنے والی خواتین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی جگہ کسی مرد رشتہ دار کو کام کرنے لیے بھیجیں۔ اب ان کی ضرورت نہیں۔ میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کو اپنا چہرہ ڈھانپنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
دوسری طرف طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان تضادات بھی سر اٹھا رہے ہیں۔ پچھلے سال اپنی حکومت کے ابتدائی ایام میں کابل میں ایک میٹنگ کے دوران طالبان قیادت کے بیچ خوفناک تصادم ہوا۔ مبینہ طور پر یہ لڑائی طاقت کی تقسیم پر تھا جو طالبان کے دو دھڑوں حقانی نیٹ ورک، جس کی قیادت سراج الدین حقانی کر رہا ہے، اور ملا برادر کے دھڑے کے درمیان ہوا تھا۔ اس لڑائی میں ملا برادر زخمی بھی ہوا جہاں سے وہ قندھار فرار ہوا۔ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی ڈیپ سٹیٹ کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ افغانستان کی اندرونی سیکیورٹی اور وزارت داخلہ کا قلمدان بھی حقانی دھڑے کے پاس ہے۔ جبکہ ملا برادر نے دوحا میں امریکیوں کے ساتھ مذاکرات کیے تھے جس کے نتیجے میں امریکی انخلا کا راستہ بنا۔ مبینہ طور پر 2010ء میں وہ اسلام آباد کی خواہشات کے برعکس امریکہ کے ساتھ الگ ڈیل کرنا چاہتا تھا۔ اسے اسی سال کراچی سے گرفتار کیا گیا اور 2018ء تک قید میں رہا۔ ملا برادر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کابل میں ایک ہمہ شمول حکومت کے حق میں ہے۔ تاریک معاشی مستقبل کے تناظر میں اس جیسی مزید اندرونی لڑائیاں آنے والے دنوں میں جنم لے سکتی ہیں۔
پچھلی چار دہائیوں سے افغانستان پر ایک خانہ جنگی مسلط ہے۔ اس انتشار اور تباہ کاری نے سیاسی عمل کو ڈی ریل کر دیا ہے۔ سیاسی سرگرمیوں کی جگہ وارلارڈز، مجاہدین اور اب طالبان کی غنڈہ گردی نے لے لی ہے۔ دراصل طالبان نے ایک زندہ ملک کی بجائے کھنڈرات پر قبضہ کیا ہے جہاں کوئی معاشی مستقبل نہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک زیادہ خطرناک انسانی المیے کی طرف جا رہی ہے۔ عوام یقینا ان حالات کو زیادہ دیر برداشت نہیں کریں گے۔ صنفی امتیاز کے خلاف خواتین کے مظاہرے موجودہ حالات میں موجود امکانات کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگر طالبان اس طرح کی مزاحمت کو کچلنے کی کوشش کریں گے تو اس سے عوامی غم و غصہ مزید بڑھے گا اور صورت حال کو مزید پیچیدہ کردے گا کیونکہ افغانستان ایران کی تھیوکریٹک ریاست کی طرح نہیں ہے جہاں تمام تر جبر کے باوجود کچھ معاشی اور سماجی امکانات بھی وجود رکھتے ہیں۔ مزید جبر سے افغانستان کی نسلی بنیادوں پر ٹوٹ پھوٹ بھی ہوسکتی ہے۔ نام نہاد قومی مزاحمتی محاذ(سابقہ مجاہدین کا ایک رجعتی ٹولہ جس کی قیادت احمد شاہ مسعود کا بیٹا احمد مسعود کر رہا ہے) داعش کے ساتھ مل کر مستقبل میں طالبان پر حملے بھی کرسکتی ہے جس سے ملک میں خون خرابہ مزید پھیلے گا۔ لیکن صورت حال کوئی اور رخ بھی اختیار کر سکتا ہے۔ یوکرائن کی جنگ نے پہلے سے بحران زدہ پاکستانی ریاست کے خلفشار کو مزید گہرا کردیا ہے۔ ریاستی بحران پھٹ کر گلی محلوں کی زینت بن چکی ہے۔ اسی طرح ایران میں افراط زر آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے۔ یہ صورت حال ان ممالک میں سماجی دھماکے جنم دے سکتی ہے۔ اسلام آباد یا تہران میں سے کسی بھی جگہ کوئی ترقی پسند تبدیلی افغانستان کے لیے امید کی کرن ثابت ہوگی۔ ایران یا پاکستان میں ایسی انقلابی تبدیلی ہی افغانستان کے عوام کو اس دہائیوں کی اذیت سے نجات دلا سکتی ہے۔