کوئٹہ: گوادر میں پانی کی قلت کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کے زیر اہتمام کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے انتظامیہ اور حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ شہر میں پانی کی قلت فوری طورپر دور کی جائے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئرنائب صدر حاجی ملک عبدالولی کاکڑ،مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغاحسن بلوچ ایڈووکیٹ،خواتین کی مرکزی سیکرٹری زینت شاہوانی ایڈووکیٹ،بی ایس او کے مرکزی سیکرٹری جنرل منیرجالب بلوچ ،مرکزی رہنماء غلام نبی مری اوردیگر نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پراہمیت کے حامل گوادر پورٹ تمام تربنیادی سہولیات سے محروم ہے ہمیں ایسی ترقی نہیں چاہئے جس میں ہمیں بنیادی سہولیات تک میسر نہ ہو گوادر کے عوام آج بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے ،عوام پانی کی بوند بوند کوترس رہے ہیں وہاں کے مکینوں کوجوپانی ملتاہے اس کے استعمال کرنے کی وجہ سے 80 فیصدلوگ مختلف بیماریوں کاشکارہوجاتے ہیں علاقے کوٹینکرمافیاکے رحم وکرم پرچھوڑ دیاگیاہے ٹینکر مافیا فی ٹینکر10سے 12ہزار روپے وصول کرتے ہیں جوعوام کے ساتھ سراسر ظلم وناانصافی ہے مقررین نے کہاکہ جوعلاقہ بنیادی ضروریات سے محروم ہو وہاں ترقی کیسے ممکن ہوگی اس طرح کی ترقی سے تومسائل بھی حل نہیں ہوتے وفاق نے اگر گوادر کوترقی دیناہے تووہاں کے وسائل پروہاں کے باسیوں کوواک واختیارد یں جب تک واک واختیار نہ ملے تواس وقت تک کسی بھی علاقے کے مسائل حل نہیں ہوتے مگرہمارے حکمران ترقی کے دعوے کرتے تکتے نہیں عالمی سطح پراہمیت کے حامل گوادر پورٹ کے عوام زندگی کی تمام تربنیادی سہولیات سے محروم ہے مگرکوئی نوٹس لینے والانہیں اورگوادر سٹی کونوگوایریامیں تبدیل کردیاگیاہے ہمیں ایسی ترقی نہیں چاہئے جس کی وجہ سے ہمیں مزیدپسماندگی سے دوچار کیاجارہاہوگزشتہ روز وفاق کی جانب سے گوادر کاشغرروٹ کاافتتاح صرف ایک ڈرامہ تھااورہمارے حکمرانوں کوبے وقوف بنایاگوادر پورٹ کے فوائد سے پنجاب فائدہ اٹھاررہی ہے ۔انہوں نے کہاکہ10جنوری کو اسلام آباد میں گوادر اور بلوچستان کے مسائل کے عنوان سے جو آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی ہے اس میں گوادر کا مسئلہ اٹھائینگے انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں اور اغوا نماء گرفتاری دراصل ہمیں گوادر کی سزا دی جارہی ہے انسانی حقوق اور دیگر بین الاقوامی تنظیمیں بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لیں انہوں نے کہاکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کل تک صوبائی خود مختاری اور بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والے لیڈران آج چند مفادات کی خاطر بلوچستان کے مسائل چھوڑ کر وزیراعظم کے حق میں بولتے ہیں ۔