|

وقتِ اشاعت :   February 26 – 2016

بلوچ پشتون صدیوں کے ہمسایہ ہیں جسکی وجہ سے انکے اقدار ، رسم ورواج اور نفسیات میں کافی یکسانیت ہے۔وہ ایک دوسرے کے جذبات اوراحساسات کا بے حد احترام کر تے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہمسایہ ہونے اور کوئٹہ کی مشتر ک (Mix)آبا دی کے با وجودان میں کو ئی بڑی بد مزگی دیکھنے میں نہیں آتی،اگر اکا دکا کبھی کوئی حادثہ پیش بھی آیا بعد میں معلوم ہواکہ بنیادی عوامل دوسرے تھے۔انہیں اپنے اختیار کا بھی علم ہے،اگر آج پشتون بلوچستان سے علیحدہ ہو نا چا ہیں یا بلوچ چا ہیں کہ وہ الگ ہوں ،یہ انکے بس کی بات نہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ انہیں اسی صوبے میں اکٹھے رہنا ہے حالانکہ یہ پشتونوں کا بنیادی انسانی و فطری حق ہے کہ وہ صوبہ خیبرپختونخواہ یا بلو چستان کے متصل بلوچ علاقے بلوچستان میں شامل ہوں۔جہاں تک مردم شماری کا تعلق ہے بعض پار ٹیاں، جو اپنے کو نیشنلسٹ کہلوانا پسند کر تی ہیں،کی جانب سے بیان بازی ،لگتا ہے ماحول کو گرما نے کی کوئی کوشش ہے جسکی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ۔یہ پہلا مردم شماری نہیں اگر بلو چستان کی گز شتہ 100سال کی مردم شماری کے ریکارڈ کو سامنے رکھاجائے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ بلوچ ،پشتون اور دیگر آبادی کا ایک ہی تناسب چلا آرہا ہے اور ہونا بھی یہی چا ہئے،جب تک کوئی علاقہ ، با ہرکی مخلوق شامل نہ ہو آبادی میں یکساں ا ضافہ گا اور تناسب بھی ایک رہے گا۔ آج اگر کسی کی خواہش پر بلو چستان میں یہ تناسب تبدیل کر نے کی کوشش کی گئی توظاہر ہے اسے کوئی قبول نہیں کرے گااور ایک بد مزگی جنم لے گی، جوبلوچ ،پشتون کسی کے مفاد میں نہیں۔یہ تو ریاست کے رٹ کی نا کامی تھی کہ مہا جرین نے شنا ختی کارڈ بنوا ئے، پھرجا ئیدادیں خریدیں اور الیکشن کے امیدواروں نے ووٹر لسٹ میں انکا اندراج کرایا۔ بلوچ پشتون ،ہزارہ سبھی امیدوار اسکے ذمہ دار ہیں۔ ملک اورصوبے کے عوام کا مفاد اسی میں ہے کہ مہاجرین، جنکی ہم نے 35سال تک طویل عرصہ میز بانی کی انہیں مردم شماری سے قبل واپس اپنے ملک بھیجا جا ئے۔ قا رئین کی آگاہی اور غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے یہاں 1931 ؁ سے بلو چستان میں مردم شماری کی مکمل تفصیل پیش کی جارہی ہے جس کے مطابق بلوچ 65%، پشتون 25%اور دیگر آبادی 10%ہیں۔ 1931 ؁ :۔ 1951 ؁ :۔ بلوچ آبادی:545189 (62.6 %) بلوچ آبادی :779209 (67.8 %) پشتون آبادی:197983 (22.8 %) پشتون آبادی:267519 (23.2 %) دیگر آبادی :125615 (14.6 %) دیگر آبادی :107441 (9.3 %) کل آبادی :868787 (100 %) کل آبادی :1154169 (100 %) 1961 ؁ :۔ 1972 ؁ :۔ بلوچ آبادی :887678 (65.6 %) بلوچ آبادی:1567836 (64.6 %) پشتون آبادی :329196 (24.3 %) پشتون آبادی :617158 (25.4 %) دیگر آبادی :136620 (10.01 %) دیگر آبادی :243684 (10 %) کل آبادی :1353484 (100 %) کل آبادی :2428678 (100 %) 1981 ؁ :۔ 1998 ؁ :۔ بلوچ آبادی :2819755 (65.1 %) بلوچ آبادی :4233039 (65 %) پشتون آبادی :1138665 (26.3 %) پشتون آبادی :1850897 (28.42 %) دیگر آبادی :374029 (8.6 %) دیگر آبادی :427422 (6.56 %) کل آبادی :4332449 (100 %) کل آبادی :6511358 (100 % بلو چستان کی ڈیمو گرافی گوادر پورٹ کے فنکشنل ہو نے پر لازمی تبدیل ہوگی۔ہر کوئی نئے موا قعوں کی تلاش میں گوادر کا رخ کرے گا اور کسی کوروکا بھی نہیں جا سکے گا۔گو کہ پاکستان کے آئین کے مطابق کو ئی شہری کسی بھی صوبے میں آباد ہو سکتا ہے لیکن ایک جگہ لا کھوں کی نکل مکانی جس سے مقامی لوگ اقلیت میں چلے جا ئیں،آئین کی حقیقی روح کے یکسر نفی ہوگی۔اس لیے ایسی قانون سا زی کی ضرورت ہے کہ گوادر کے لوگ اقلیت میں نہ چلے جا ئیں۔انڈیا نے بھی آسام، ہما چل پر دیش ، کشمیر اور چند دوسری ریاستوں کے مقامی آبادی کوآئینی تحفظ دے رکھی ہے، جہاں اور ریا ستوں کے شہری نہ توووٹر بن سکتے ہیں اور نہ غیر منقو لہ جائیداد (Immobile property) خرید سکتے ہیں۔بلو چستان کے لیئے بھی اس طرح کے تحفظ کی ضرورت ہے۔