بلوچستان وسائل کے ساتھ ساتھ مسائل کے اعتبار سے بھی اپنی مثال آپ ہے۔یہ بات پاکستان کے ہر فرد کو معلوم ہے کہ سر زمین بلوچستان پاکستان کا دل ہے اور بلوچستان رقبہ کے لحاظ سے بھی پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے
اسی طرح بلوچستان کا زیر زمین اور پشت زمین ہر قسم کی معدنیات سے مالا مال ہے اور بلوچستان کی ساری معدنیات اور وسائل بلوچستان کی بجائے پاکستان کے دوسرے صوبوں میں تقسیم ہوتے ہیں اور بلوچستان کے لوگ آج بھی سو سال پیچھے پتھر کے زمانے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور اور زندگی کی ہر بنیادی سہولت سے محروم ہیں
۔ یہ صوبہ معدنیات کے لحاظ سے پاکستان کا امیر ترین صوبہ ہے مگر اس کے لوگوں کو گزشتہ کئی دہائیوں سے نظر انداز کیا جارہا ہے اور جو ظلم، جبر، تشدد اور بربریت بلوچستان میں ہورہی ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ بلوچستان سے جتنی بھی معدنیات نکلے وہ بلوچستان کے لوگوں کی فائدے کی بجائے ان کے لیے وبال جان بن گئے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو ان کے تمام تر بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا اور بلوچستان کے لوگوں کی آواز کو ہمیشہ کیلئے دبانے کی کوشش کی گئی ۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہزاروں بلوچ افراد کو لاپتہ کیا گیا اور بہت ساروں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیاگیا ۔وجہ صرف یہ تھا کہ وہ اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کررہے تھے ۔
ا صل میں ریاست کا اولین مقصد یہ تھا کہ کسی نہ کسی طریقے سے بلوچستان کے وسائل اور معدنیات پر قبضہ کیا جائے
اور وہ اپنے اس مقصد میں ایک حد تک کامیاب بھی ہو گئے۔ ان کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ بلوچستان کے بلوچوں پر تشدد، جبر، ظلم اور قتل و غارت کریں تا کہ ان کا نام اور شناخت ہی مٹ جائے مگر قومیں مارنے سے ختم نہیں ہوتیں، شاید یہ چیز اسلام آباد کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ان چیزوں سے فقط نفرت ہی میں اضافہ ہو تا ہے اور بلوچ کی آواز دبنے کی بجائے اور زیادہ بلند ہو جائے گی۔
اگر دیکھا جائے تو بلوچستان میں سے سینکڑوں لاپتہ افراد کو قتل کرکے ان کی لاشوں کو پھینکا گیا اور ہزاروں لوگ ابھی تک بھی لاپتہ ہیں ،
اسی طرح کچھ دن پہلے بلوچستان کے علاقے تربت سے ایک نوجوان جس کا نام بالاچ بلوچ تھا ، کو پہلے تو سی ٹی ڈی کے لوگوں نے مبینہ طور پر لاپتہ کیا اور اس کے بعد اس کو (CTD) نے قتل کر کے پھینک دیا۔ الزام یہ لگایا گیاکہ دہشت گردوں کی نشاندہی کے دوران دہشت گردوں کی جانب سے فائرنگ کے تبادلے میں بالاچ کو گولی لگی۔ اب یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ
سی ٹی ڈی کے جو لوگ وہاں بالاچ کو لے کر نشاندہی کرنے گئے تھے کیا ان کے ساتھ کوئی سی ٹی ڈی کے اہلکار نہیں تھے؟! اگر تھے تو کیوں کسی کو کوئی خروش تک نہیں آئی؟! نیز بالاچ کے لواحقین کو زبردستی مطمئن کرنے کے مختلف طریقے اپنائے گئے حالانکہ بالاچ بلوچ کو پہلے سے مبینہ طور پر لاپتہ کیا گیا تھا اور پھر اس کو عدالت میں پیش کرنے کی بجائے اس کی لاش بھیج دی گئی
اور بھی اس طرح کے سینکڑوں نوجوانوں کو بلوچستان سے اٹھا کر ان کو لاپتہ کیا گیا اور پھر بعد میں انہیں قتل کیا گیا۔مملکت خداداد میں عدالتوں کی عمارات اور ان میں بیٹھے جج صاحبان کی موجودگی کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ ان سے قانون کی حکمرانی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔اگر کوئی ریاست کسی مجرم کو عدالت میں پیش نہیں کر سکتا تو طاقت کو قانون بنانا اس ریاست کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بن سکتا ہے جس طرح کہ پاکستان بن چکا ہے۔
ہم نے کب زخم پر اپنے ہی، نمک مانگا تھا۔
یہ خوشی اور نوازش ہو، مبارک تم کو،
ہم نے خیرات نہیں مانگی، اپنا حق مانگا تھا۔
لیکن یہاں اگر عدالتیں ہیں تو صرف اسٹیبلشمنٹ اور بڑے سیاسی لوگوں کیلئے ، یہاں اگر عدالتیں ہیں تو اس کے دروازے صرف اور صرف ان بڑے جابر، ظالم اور بے رحم سیاسی رہنماؤں کی مفاد کیلئے کھلتے ہیں ، کم سے کم یہ بلوچوں کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکتے۔