|

وقتِ اشاعت :   January 5 – 2024

سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے کیس کی سماعت جاری ہے جس کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس میں کہا ہے کہ آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔

لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ انتخابات سے متعلق انفرادی کیس ہم نہیں سنیں گے، ہم آئینی تشریح سے متعلق کیس کو سنیں گے، انتخابات سے متعلق انفرادی کیس اگلے ہفتے کسی اور بینچ میں لگا دیں گے۔

جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے جہانگیر ترین کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ کے مطابق نااہلی کا ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جی، ڈکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا، سول کورٹ کے فیصلے پر کسی کا کوئی بنیادی آئینی حق تاحیات ختم نہیں ہوتا، کامن لاء سے ایسی کوئی مثال مجھے نہیں ملی، کسی کا یوٹیلیٹی بل بقایا ہو اور وہ ادا ہو جائے تو وہ اہل ہو جاتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ آرٹیکل 62 ون ایف انتخابات سے پہلے لگ سکتا ہے یا بعد میں بھی لگ سکتا ہے؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ملا کر دیکھیں تو انتخابات سے پہلے ہی نااہلی ہوتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ دیکھیں کہ 62 ون ایف کی نااہلی جیسی ترامیم کب لائی گئیں؟ آئین میں اس قسم کی ترامیم ایوب خان کے دور میں شروع ہوئیں اور آگے چلتی گئیں، پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، ہم نے نااہلی کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا، کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے، ملک تباہ کر دیں کچھ نہیں ہوتا، کاغذاتِ نامزدگی میں ایک غلطی تاحیات نااہلی کر دیتی ہے، ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز اور اس کی زبان تک محدود کیوں کر رہے ہیں؟ ہم آئینی تاریخ کو، بنیادی حقوق کو نظر انداز کیوں کر رہے ہیں؟ مخصوص نئی شقیں داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لیے گئے؟ صرف ایک جنرل نے 62 ون ایف کی شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟ خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں، کیا کسی اور ملک میں سیاستدانوں کا ایسا ٹیسٹ ہوتا ہے؟ کیا دنیا کے کسی ملک میں انتخابات سے پہلے اتنا سخت ٹیسٹ ہوتا ہے؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ کسی اور ملک میں سیاستدانوں کے لیے ایسا کوئی ٹیسٹ نہیں ہوتا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ہمارے سیاستدان پوری دنیا کے سیاستدانوں سے الگ ہیں؟ کاغذاتِ نامزدگی میں ذاتی معلومات دیں اور انتخابات کے لیے اہل ہو جائیں، سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں معاشرے کے قرض کا ذکر مضحکہ خیز ہے، قتل پر لواحقین سے صلح پر معاملہ ختم ہو جائے تو معاشرے کا قرض کہاں جاتا ہے؟ کاغذاتِ نامزدگی میں کچھ غلط ہو جائے تو تاحیات نااہل کیسے ہو جائے گا؟ کاغذاتِ نامزدگی میں پوچھا جاتا ہے آپ کے پاس کتنا سونا ہے؟ اگر سونا رکھنے سے متعلق درست نہ بتایا جائے تو تاحیات نااہل کر دیتے ہیں، تاحیات نااہلی کی کوئی تو منطق ہونی چاہیے۔

جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ فراڈ پر ایک شخص کو سزا ہو جائے تو کیا سزا کے بعد انتخابات لڑ سکتا ہے؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ دھوکا دہی میں سزا پوری ہونے کے بعد انتخابات میں حصہ لیا جا سکتا ہے، الیکشن ٹریبونل پورے الیکشن کو بھی کالعدم قرار دے سکتا ہے، الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کی سزا 2 سال ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب قانون میں بھی سزا 10 سال کرائی گئی، آئین وکلاء کے لیے نہیں عوام کے لیے ہے، آئین کو آسان کریں، آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دے، فلسفیانہ باتوں کے بجائے آسان بات کریں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عوام کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ کون صادق اور امین ہے؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لارجربینچ بنایا تاکہ سوالات کا جواب ملے لیکن معاملہ الجھتا جا رہا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انتظار کر لیتے ہیں، کیا پتہ سوالات کے جوابات اس سے بڑے بینچ سے آ جائیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا ایک شخص کی غلطی سے پورا حلقہ متاثر کیا جا سکتا ہے؟ مخصوص کیس کے باعث حلقے کے لوگ اپنے نمائندے سے محروم کیوں ہوں؟ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص پر مخصوص مقدمہ بنے اور پورا حلقہ اس کے نتائج بھگتے، عدالت کسی کو بد دیانت قرار دے لیکن معاشرہ اسے ایماندار سمجھتا ہو تو فیصلے کا کیا ہو گا؟

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا عدالت الیکشن ایکٹ سیکشن 232 کو کالعدم قرار دے سکتی ہے؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سیکشن 232 عدالت کے سامنے چیلنج نہیں ہوا، اس کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، عدالت خود کو صرف سمیع اللّٰہ بلوچ فیصلے تک محدود رکھے، الیکشن ایکٹ ترمیم پر فیصلے کے لیے اس کے خلاف درخواست آنا ضروری ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ عدالت نے اپنا ہی فیصلہ دیکھنا ہے تو کیا 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہونی چاہیے؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کہا گیا کہ عام قانون سازی آئینی ترمیم کا راستہ کھول سکتی ہے، اس کا کیا مطلب ہے کہ ہم اپنی مرضی سے جو فیصلہ چاہیں کر دیں؟ کیا ہمارے پارلیمان میں بیٹھے لوگ بہت زیادہ سمجھدار ہیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کوئی کاغذات میں جھوٹ بولے تو کیا آر او مواد دیکھ کر ڈیکلیئریشن دے سکتا ہے؟

مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ بالکل نہیں، ریٹرننگ افسر کورٹ آف لاء نہیں جو ڈیکلیئریشن جاری کرے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے پھر سوال کیا کہ کیا ہائی کورٹ ڈیکلیئریشن جاری کر سکتی ہے؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ ڈیکلیئریشن دے سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون سازوں نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت 5 سال کر دی، بہتر نہ ہوتا کہ واضح لکھا جاتا کہ ڈیکلیئریشن کے تحت 62 ون ایف میں نااہلی 5 سال ہو گی؟

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت قانون آپ کے سامنے چیلنج نہیں ہوا، آپ اپیل سن رہے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ فیصل واؤڈا کیس میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل مخدوم علی خان سے کہا کہ اس کیس میں ڈیکلیئریشن نہیں تھا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت طے کر دی پھر تو یہ اکیڈمک سوال ہوا کہ نااہلی کی مدت کیا ہو گی؟

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگر سمیع اللّٰہ بلوچ کیس کے فیصلے کو کالعدم قرار دیں تو سزا کتنی ہو گی؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پارلیمنٹ کہہ چکی ہے کہ نااہلی 5 سال ہو گی، کیا سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس کیا گیا تھا؟ ریکارڈ منگوا لیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سیکشن 232 نے عدالتی معاون کے مطابق سمیع اللّٰہ بلوچ کیس کے فیصلے کو بے اثر کر دیا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف سمیع اللّٰہ بلوچ فیصلے کو دیکھے، سیکشن 232 چیلنج ہی نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ میں توبہ کے نظریے کی بات ہوئی، عدالت کو سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کے فیصلے کو ختم کرنا ہو گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ یا کوئی مثال ہے نااہل اور سزا یافتہ شخص کولنگ پیریڈ کے بعد انتخابات لڑنے آ جائے؟

جسٹس مظہر نے سوال کیا کہ کیا عدالت قرار دے سکتی ہے، الیکشن ایکٹ سیکشن 232 آنے سے تاحیات نااہلی کا فیصلہ خود بے اثر ہو گیا؟

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں رد وبدل ممکن ہے؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس سوال کا جواب ہم سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے فیصلے میں دے چکے، قانون سازی سے آئین میں رد وبدل ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے مخدوم علی خان کو ہدایت کی کہ آپ آج ہی اپنی تحریری معروضات جمع کرا دیں، پورا پاکستان 5 سال نااہلی کے مدت کے قانون سے خوش ہے، کسی نے 5 سال نااہلی کا قانون چیلنج ہی نہیں کیا۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سمیع اللّٰہ بلوچ کیس کے فیصلے کو ختم کریں کیونکہ بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا۔