|

وقتِ اشاعت :   January 30 – 2024

سائفر کیس کی خصوصی عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10،10 سال قید کی سزا سنادی۔

خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی سماعت کی ۔

عمران خان اور شاہ محمود عدالت میں موجود تھے۔سماعت کے دوران جج نے کہا کہ آپ کے وکلاء حاضر نہیں ہورہے،آپ کو اسٹیٹ ڈیفنس کونسل فراہم کی گئی،

اس پر وکلا صفائی نے کہا کہ ہم جرح کرلیتے ہیں۔جج نے وکلا صفائی سے کہا کہ آپ نے مجھ پر عدم اعتماد کیا ہے۔دوران سماعت 342 کا سوالنامہ شاہ محمود قریشی اور بانی پی ٹی آئی کو دیا گیا جس پر دونوں ملزمان نے کہا کہ ہمارے وکلا موجود نہیں، ہم کیسے بیان ریکارڈ کرائیں گے۔عمران خان خصوصی عدالت کے روبرو 342 کا بیان ریکارڈ کرانے روسٹرم پر آئے جس میں انہوں نے بتایا کہ سائفر میرے آفس میں تھا، ذمہ داری پرنسپل سیکرٹری اور ملٹری سیکرٹری کی ہوتی ہے،

بتانا چاہتا ہوں کہ اصل سازش کیسے ہوئی۔بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ساڑھے 3 سال کے دوران بطور وزیراعظم صرف سائفرکی ایک دستاویزغائب ہوئی،

سائفرگمشدگی پر ملٹری سیکرٹری سے کہا کہ اس کی انکوائری کرو جس پر ملٹری سیکرٹری نے کہا انکوائری کی لیکن سائفر کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔عمران خان نے مزید کہا کہ 2 کروڑ 30 لاکھ ووٹوں سے منتخب وزیراعظم کو نکالا گیا، منتخب وزیراعظم کے خلاف سازش میں جنرل باجوہ اور ڈونلڈ لو شامل تھے،

حسین حقانی نے جنرل باجوہ کے کہنے پرمیرے خلاف لابنگ کی۔انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ جنرل باجوہ سے ملاقات کے لیے تین رکنی کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی میں اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک شامل تھے، جنرل باجوہ نے کمیٹی کو کہا اپنی سمت درست کرو،

ورنہ12 سال کے لیے اندر جاؤگے، روس سے واپس آیا تو شاہ محمود قریشی نے مجھے سائفرپیغام سے آگاہ کیا۔بانی پی ٹی آئی کے مطابق اس دوران میری باجوہ سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔عدالت نے عمران خان کا 342 کا بیان ریکارڈ کرنے اور مختصر سماعت کے بعد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود کو 10،10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی جاتی ہے۔سائفر کیس کا معاملہ بہت سنگین تھا۔

واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے امریکا میں پاکستانی سفیر کے مراسلے یا سائفرکو بنیاد بنا کر ہی اپنی حکومت کے خلاف سازش کا بیانیہ بنایا تھا جس میں عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے خاتمے میں امریکا کا ہاتھ ہے

تاہم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سائفر کو لے کر پی ٹی آئی حکومت کے مؤقف کی تردید کی جاچکی ہے۔اس کے علاوہ سائفر سے متعلق عمران خان اور ان کے سابق سیکرٹری اعظم خان کی ایک آڈیو لیک سامنے آئی تھی جس میں عمران خان کو کہتے سنا گیا تھا کہ اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، امریکا کا نام نہیں لینا،

بس صرف یہ کھیلنا ہے جس پر اعظم خان نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سائفر کے اوپر ایک میٹنگ کر لیتے ہیں۔اس کے بعد وفاقی کابینہ نے اس معاملے کی تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کیا تھا۔اعظم خان پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری تھے اور وہ وزیراعظم کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے۔سائفر کے حوالے سے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا تھا

سائفر پر ڈرامائی انداز میں بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی اور افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں جس کا مقصد سیاسی فائدہ اٹھانا تھا۔معاملہ یہاں پر بھی نہیںٹھہرتا ،بانی پی ٹی آئی نے سائفر کے ساتھ کھلواڑ کے بعد خود کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں سازش میں پی ڈی ایم سمیت اس کے اتحادیوں کو بھی سازشی قرار دیا ،روز ایک نیا نام لے کر وہ عوام کے سامنے لاتے اور اس پر امریکی ایجنٹ اور سازش کاڈرامہ رچایا۔بہرحال بانی پی ٹی آئی نے سائفر پر جھوٹ بھی بہت زیادہ بولے،

خود اس بات کا اعتراف کیا کہ سائفر مجھ سے گم ہوگئی ہے پھر اس کے بعد اسی بیان سے بھی یوٹرن لیا ۔وہ اپنے ایک بیان پر کبھی قائم نہیں رہے چونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس لیے روز ایک نئی جھوٹ گھڑ لیتے رہے اور عوام کو گمراہ کرنے کی مکمل کوشش کی ۔ آج بانی پی ٹی آئی اپنے سیاسی رویے کی وجہ سے جیل میں ہیں اور ان کی جماعت کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے ۔ بہرحال بانی پی ٹی آئی اپنے جھوٹے بیانیہ اور سیاسی روش کے باعث مکافات عمل کا شکار ہوئے ہیں ۔