|

وقتِ اشاعت :   February 6 – 2024

ملک میں عام انتخابات مہم کے دوران پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان ایک دوسرے پر بیان بازی شدت اختیار کرتی جارہی ہے،

دونوں جماعتوں کی جانب سے اپنے دور حکومت کے ترقیاتی کاموں اور دوسرے پر بیڈ گورننس کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ملک کی بڑی جماعتیں ہیں اور ان کی حکومتیں مرکز میں رہی ہیں

مگر سب سے زیادہ موقع ن لیگ کے حصے میں آیا، ن لیگ کی جانب سے صرف پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں کی مثالیں دینادیگر صوبوں کو نظرانداز کرنے کی نشاندہی کرتی ہے۔

اسی طرح پیپلزپارٹی کی سند ھ میں ترقیاتی کاموں کو گنوانا بھی زیادتی ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ دونوں جماعتیں اپنے دور حکومت کے تمام ترقیاتی کاموں کی مکمل رپورٹ سامنے لاتیں کہ کس نے اپنے دور میں کتنی صنعتیں لگائیں، روزگار دیا، بجلی گھر بنائے،انفراسٹرکچر پر کام کیا، صوبوں کو کتنا خودکفیل کرکے ان کو ترقی کے مواقع فراہم کئے مگر ایسے بیانات نہیں دیئے جارہے،یقینا یہ تخت اسلام آباد کی جنگ ہے

کوشش دونوں جماعتوں کی یہی ہے کہ وہ مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔ بہرحال لگ ایسے رہا ہے کہ مخلوط حکومت بنے گی مگر کوشش زور وشور سے جاری ہے۔ اگر دیگر سیاسی ومذہبی جماعتوں کا بیانیہ دیکھاجائے تو وہ بھی یہ شکوہ کررہی ہیں کہ بڑی جماعتوں نے ملک کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ بدامنی،

معاشی بدحالی اور بحرانات پیداکئے،ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچایامگر یہ چھوٹے پاکٹ بآسانی بڑی جماعتوں کے اتحادی بننے میں تاخیر نہیں کرتے جو مشروط ضرور ہوتے ہیں اور ان میں وزارت کا حصہ ہوتا ہے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں کا موازنہ غیر جانبدارانہ طور پر بھی کیاجاسکتا ہے کہ

اگر بہت بہترین حکومت رہی ہے تو ملک میں بحرانات یکدم سے سر کیوں اٹھاتے ہیں اورہر بار معیشت کیوں تباہ ہوجاتی ہے، بدامنی کے مسائل کیسے پیدا ہوتے ہیں یعنی مستقل قومی پالیسی جو ملکی معیشت، سیاسی، خارجی، داخلی سمیت دیگر معاملات کی سمت طے کرے مگراس پر کام نہیں ہوا

اور یہ ایک جماعت کا کام نہیں ہے بلکہ تمام اسٹیک ہولڈر کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ بہرحال گزشتہ روزچیئرمین پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو مناظرے کے چیلنج پر صدر مسلم لیگ ن شہباز نے بلاول بھٹو زرداری پر پلٹ کر وار کرتے ہوئے انہیں موازنے کا چیلنج دے دیا۔

شہباز شریف نے کہا کہ مناظرہ بھی ہو جائے گا لیکن گزشتہ روز کی بارش سے لاہور اور کراچی کا موازنہ ہوگیا ہے، کراچی میں ٹھاٹھیں مارتا سمندر تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا، مائیں بہنیں گھٹنے گھٹنے پانی سے گزر رہی تھیں۔شہباز شریف کا کہنا تھا الیکشن لڑنے کا ہر شخص کو حق حاصل ہے،

بلاول کراچی، لاہور، میانوالی، کوئٹہ سے الیکشن لڑیں، ان کا حق ہے لیکن پیسے بانٹ کر شناختی کارڈ رکھنا ووٹ کی بدترین توہین ہے، اگر ووٹ خریدنے کی بات درست ہے تو یہ ووٹ کی عزت نہیں توہین ہے۔ن لیگ نے لاہور پر بہت حکمرانی کی ہے،گزشتہ سال وہاں بھی بارش ہوئی تھی تووہاں کا بھی انفراسٹرکچر تباہ ہوکر رہ گیا تھا ویسے ہی مسائل کا سامناتھا جو کراچی کے شہریوں کو کرناپڑتا ہے جبکہ ووٹ خریدنے کے مبینہ معاملے پر الیکشن کمیشن نے دونوں جماعتوں کے امیدواروں کونوٹسز جاری کردیئے

ہیں۔اس سے قبل چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں مسلم لیگ ن کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نوازشریف کو مباحثے کی دعوت دیتا ہوں، نوازشریف 8 فروری سے پہلے کسی بھی وقت، کہیں بھی مجھ سے مباحثہ کرلیں،

عالمی سطح پر صدارتی اور وزارت عظمیٰ کے امیدوار ٹیلی ویژن پر ہونے والے مباحثوں میں حصہ لیتے ہیں

۔بلاول بھٹو زرداری کاکہناتھاکہ عالمی رہنما ووٹرز کو لائیو مباحثوں میں اپنے منصوبوں کے بارے میں اہم نکات بیان کرتے ہیں، ووٹنگ کے عمل سے پہلے شفافیت کے لئے ووٹرز کو امیدواروں سے متعلق آگاہی بہت ضروری ہے۔ یہ خواہش اگر پوری ہوجائے تو سب کچھ سامنے آجائے گا

ایک غیر جانبدار میڈیا کی جانب سے موازنہ کااہتمام ضروری ہے تاکہ مدِ مقابل ہونے والے سیاسی قائدین کی کارکردگی عوام براہ راست دیکھ لیں اور موازنہ بھی ہوجائے گا اور عوام کوفیصلہ کرنے میں بھی آسانی ہوگی مگر ایسا نہیں ہوگا کیونکہ اس وقت پوائنٹ اسکورنگ کی جارہی ہے،

توجہ حکومت بنانے پر لگی ہوئی ہے اورسارا زور بیانیوں پر ہے۔ اس ملک کی قسمت تب تک نہیں بدلے گی جب تک ایک مکمل جامہ پالیسی ریاستی سطح پر نہیں بنائی جاتی جو ملکی بحرانات کے مسائل کا حل ہو،اس طرف توجہ بہت کم جبکہ عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کی مہم زورشور سے جاری ہے۔