|

وقتِ اشاعت :   March 19 – 2024

راقم زراعت سے متعلق موضوع پر منعقدہ ایک سیمینار میں شریک تھا بلوچستان میں زراعت کے شعبے کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے اور اس میں انٹرنیشنل ادارہ ایف اے او کس طرح کا کردار ادا کر سکتا ہے موضوع بحث تھا ۔پروگرام میں زراعت کی عالمی تنظیم ایف اے او سمیت زمینداروں کی تنظیم کے نمائندے موجود تھے۔ زمیندار تنظیم کے نمائندے چونکہ بلوچستان کے سرد علاقوں سے تعلق رکھتے تھے وہ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ بلوچستان کے زمینداروں کو اگر زیتون کی نرسری فراہم کی جائے تو اس سے بلوچستان کے زمینداروں کا ایک مستقل مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور ان کی انکم بڑھ سکتی ہے۔ بعد میں اس موضوع کو کس طرح آگے بڑھایا گیا اور بات کہاں تک پہنچی اور اس پر کس قدر عمل درآمد ہوا خدا جانے البتہ گزشتہ چند سالوں سے حکومتی ادارہ زراعت نے زیتون کی نرسری کو شعبے کا حصہ بنایا اور یہ نرسری اب گرم اضلاع میں بھی دستیاب ہے۔ گرم علاقے کا میر اایک قریبی رشتہ دار جس نے پانچ سال قبل اپنی زرعی اراضی پر زیتون کی شجرکاری کر رکھی تھی زیتون کے درخت فصل دینے سے قاصر ہیں اب وہ بیچارہ ان درختوں پر دیسی ٹوٹکے استعمال کرکے انہیں کارآمد بنانے کی سعی تو کر رہا ہے مگر وہ اپنے ان ٹوٹکوں میں کس قدر کامیاب ہوگا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا یا یہ کہ محکمہ زراعت کا تحقیقی شعبہ پہل کرکے اس درخت کے گرم علاقوں میں کامیاب نہ ہونے کی وجوہات ڈھونڈ نکالنے کی کوشش کرے جو وہ اس کی ابتدا کرتے وقت نہ کر سکا شاید اس کا سراغ مل جائے۔۔ بلوچستان کا موسم تمام علاقوں میں ایک جیسا نہیں رہتا۔ موسموں کا اتارچڑھاؤ نہ صرف انسان کی نفسیاتی بلکہ سماجی عوامل پر اثر انداز ہوتے ہیں کوئی بھی پالیسی بناتے یا لاگو کرتے ہوئے آپ نے ایریاز کی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ سازی کرنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں نہیں کیا جاتا ہے نہ کرنے کی وجہ وہ ڈومینینٹ پاور ہے۔ اس وقت بلوچستان بالخصوص گرم علاقوں کے سکولوں کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔ بلوچستان کے 36 اضلاع کو موسم کے اعتبار سے تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔اے کیٹیگری میں سرد علاقے ہیں جن کی تعداد 17 ہے ۔بی کیٹیگری میں گرم علاقے ہیں جن کی تعداد 16 ہے جبکہ تیسری کیٹیگری ان اضلاع کی ہے جن کے کچھ علاقے سرد اور کچھ گرم ہیں۔ ان اضلاع کی تعداد 3 ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موسمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سکولوں کا تعلیمی دورانیہ ترتیب دیا جاتا۔ پورے بلوچستان کا تعلیمی خاکہ سرد علاقوں کو بنیاد بنا کر کیا گیا ہے جس کا خمیازہ گرم علاقوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ وہ کیسے؟ آئیے ذرا اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ چند سال قبل گرم علاقوں کا تعلیمی دورانیہ تبدیل کرکے تعلیمی سال کا آغاز گرما کی چھٹیوں کے بعد کیا گیا۔ ہوتا یوں تھا کہ مئی کے مہینے میں سالانہ امتحان لیا جاتا تھا۔ گرمی کی چھٹیوں سے قبل نتائج کا اعلان کیا جاتا تھا۔ نتائج کا حتمی رپورٹ ضلعی دفتر کو ارسال کیا جاتا تھا ضلعی دفاتر سے کتابوں کا حتمی ڈیمانڈ صوبے کو بھیج دیا جاتا تھا جس کی بنیاد پر کتابیں فراہم کی جاتی تھیں۔ چھٹیوں کے دوران کتابوں کی ترسیل کرکے اگست میں تعلیمی سال کا آغاز بہتر انداز میں کیا جاتا تھا۔ مگر پھر صوبائی سطح پر ذمہ داران نے اپنی آسانی کو بنیاد بنا کر سرد اور گرم علاقوں کا تعلیمی سال کا دورانیہ ایک جیسا کر دیا۔ یعنی مارچ تعلیمی سال کا آغاز قرار پاپا۔ گرم علاقوِں کو نصابی کتابوں کی کمی کا سامنا سال بھر رہتا ہے۔ ان کے پاس کلاس وائز کتابوں کی کوئی واضح ڈیمانڈ نہیں ہوتی۔ وجہ؟ وجہ یہ کہ فروری کے مہینے میں جہاں ڈائریکٹریٹ سے کتابوں کی حصولی کا حکم نامہ آجاتا ہے اس وقت تک تو گرم علاقے کی سکولوں میں امتحانات چل رہے ہوتے ہیں اور ضلعی تعلیمی دفتر نصابی کتابوں کا ایک سطحی ڈیمانڈ صوبے کو بھیجتا ہے اور وہ ڈیمانڈ سکولوں کے نصابی کتب کی ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ کتابیں وقت پر سکول نہیں پہنچتیں۔ وقفہ آجاتا ہے اور اس وقفے کے دوران تدریسی نظام میں خلل آجاتا ہے اور سردمہری کے نتیجے میں تعلیمی سلسلہ تعطل کا شکار ہوجاتا ہے۔ پھر جب تعلیمی سلسلہ چل پڑتا ہے تو گرما کی طویل چھٹیاں آجاتی ہیں طویل چھٹیوں کے بعد سلسلے کو دوبارہ اس ٹریک پر لانا سکول انتظامیہ کے لیے جان جوکھم والا کام بن جاتا ہے جب بچے واپس آتے ہیں تو کتابیں گما دیتے ہیں۔ پھر جو دورانیہ رہ جاتا ہے اس میں سردیوں کی چھٹیاں عید کی چھٹیاں اور نہ جانے کون کون سی چھٹیاں۔ فروری تک پہنچتے پہنچتے اساتذہ بمشکل ہی نصاب کا آدھا حصہ ہی مکمل کرپائیں تو غنیمت۔۔۔ یہ تعلیمی دورانیہ سرد علاقوں کے لیے تو اچھا ہے مگر گرم علاقوں کے لیے ہر گز نہیں۔ گرم علاقوں کے لیے تعلیمی سال کا آغاز اگر اگست کے مہینے سے اور اختتام مئی کے مہینے میں کیا جائے تو ان اداروں کے پاس تسلسل سے تدریسی سلسلے 9 ماہ رہ جائیں گے جو انہیں سلیبس کو کور کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ نصابی کتب تک حصول میں آسانی پیدا ہوگی۔ موجودہ دورانیہ اگست سے جنوری تک کا ہے جو کل ملا کر چھ ماہ بنتی ہے۔ مارچ اپریل اور مئی کا مہینہ ویسے بھی نصابی کتابوں کا رونا رونے، کتابوں کی عدم فراہمی سے پیدا ہونے والی عدم دلچسپی اور اس دوران جو کچھ پڑھایا ہو بھی تو گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد یعنی اگست میں انہیں ازسرنو پڑھانا پڑتا ہے۔ شعبہ تعلیم کے ذمہ داران کو نہ صرف اس اہم مسئلے پر سوچنے کی ضرورت ہے بلکہ اس اہم مسئلے پر گرم اضلاع کے تعلیمی اداروں کا دورہ کرکے وہاں کے ذمہ داران کی مشاورت سے اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔