چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ میڈیا پر یہ رپورٹ نہیں ہو گا کہ 6 درخواستگزار غائب ہوگئے، اسی لئے ہم نے کہا اپنا یوٹیوب چینل چلائیں گے، اگلے دن میری اہلیہ کے بارے میں غلط خبر چل گئی، کہا گیا وہ ایک میٹنگ میں بیٹھی ہوئی تھیں، ایسی خبر چلانے والوں کو کیا توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟ کیا فرد جرم عائد کر کے انہیں جیل بھیجیں، اپنے تھمب نیل اور اپنی خبر میں انہوں نے یہی کہہ دیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ، ایف آئی اے کا صحافیوں کو نوٹسز جاری کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ کیس میں کچھ بھی ارجنٹ نہیں ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ حیدر وحید کہاں ہیں؟
بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ وہ میڈیا ریگولیشن سے متعلق اپنی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وہ مگر کورٹ اٹینڈ کرنے بھی نہیں آئے، کیا ان کی پٹیشن آزادی اظہار کو یقینی بناتی یا مزید روکتی، ان کے کیس میں درخواست گزار کون تھے،2022 سے یہ درخواست کس بنیاد پر دائر تھی کیا ان کا مقصد پورا ہوگیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزاروں میں کوئی چکوال کا تھا کوئی اسلام آباد کا، کون سا مشترکہ مفاد تھا جو ان درخواستگزاروں کو ساتھ لایا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میڈیا میں بڑی منتخب رپورٹنگ ہوتی ہے، اب یہ رپورٹ نہیں ہو گا یہ چھ درخواست گزار غائب ہو گئے، اسی لئے ہم نے کہا ہم اپنا یوٹیوب چینل چلائیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ، کیا حیدر وحید والی درخواست کا کوئی پٹیشنر عدالت میں ہے؟۔
جس کے بعد چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلایا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس طرح کی درخواست عدالت کا غلط استعمال نہیں؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بالکل یہ پراسیس کا غلط استعمال ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ایسی درخواستیں عدلیہ کی آزادی یقینی بناتی ہیں یا اسے کم کرتی ہیں، پٹیشن کے تمام درخواستگزاروں کو نوٹس کرکے طلب کیوں نہ کریں؟
اٹارنی جنرل نے درخواست گزاروں کو نوٹس کرنے کی حمایت کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی ان لوگوں سے آوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ تو نہیں ہوگئی؟
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ایک صحافتی باڈی ہیں ایسی سیٹلمنٹ کے وسائل نہیں۔
عدالت نے کہا کہ ضروری نہیں پیسے ہی ہوں، ہوسکتا ہے کہا گیا ہو آئندہ خبر اچھی چھاپ دینا۔
میڈیا ریگولیشن کے درخواست گزار ذاتی حیثیت میں طلب
عدالت نے میڈیا ریگولیشن کے درخواست گزاروں کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے درخواستگزاروں کو نوٹس جاری کیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا، کوئی اور ارجنٹ معاملہ ہے؟ حکومت اخبارمیں اشتہار کیوں نہیں دیتی ان لوگوں کی تلاش ہے، اگر کچھ نہیں کرتے تو ایسا آرڈر آئے گا جو آپ کو پسند نہیں آئے گا، کیا انہوں نے انٹرویو ریکارڈ کیا تھا، یہ کیسا جرنلزم ہوا؟
’میری اہلیہ کے بارے میں غلط خبر چل گئی‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگلے دن میری اہلیہ کے بارے میں غلط خبر چل گئی، کہا گیا وہ ایک میٹنگ میں بیٹھی ہوئی تھیں، کیا ہم سارا دن بیٹھ کر وضاحتیں جاری کرتے رہیں؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ کہ کہا جائے گا چیف جسٹس کی اہلیہ نے تو تردید جاری نہیں کی، کیا تاثر جائے گا اس خبرسے کہ چیف جسٹس کی اہلیہ آفیشل میٹنگ میں بیٹھی تھیں، ایسی خبر چلانے والوں کو کیا توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟ کیا فرد جرم عائد کر کے انہیں جیل بھیجیں، اپنے تھمب نیل اور اپنی خبر میں انہوں نے یہی کہہ دیا۔