|

وقتِ اشاعت :   April 3 – 2024

گوہر خان ، کمبر اور یوسف میر گٹ کی چوٹی پہ بیٹھے مشاورت کررہے تھے ، کمبر نے گوہر خان سے کہا کہ اپ کو نورگامہ کے قمبرانیوں سے مدد حاصل کرنا چائیے ان کے مالی حالت بہت بہتر ہے ، گوہر خان نے کہا کہ میں نے تمام سرداروں کو جنگ میں شامل ہونے کی دعوت دیا تھا لیکن چند سرداروں کے سوا کسی نے بھی شرکت نہیں کیا، بعد میں یہ بھی ساتھ چھوڈ کر فرار ہوگئے ، کمبر نے کہا بلوچوں میں سانگ بندی بہت زیادہ اثر دار رشتہ ہوتا ہے اپ یوسف کا رشتہ بدل خان قمبرانی کی بیٹی کے ساتھ کردو اس طرح وہ اپ کو مالی اور عسکری مدد دینگے ، گوہر خان کو یہ مشورہ پسند آیا اس نے بدل خان قمبرانی سے یوسف کے لیے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگ لیا ، بدل خان کے لیے یہ اعزاز تھا کہ سرسرداران اس کی رشتہ دار بن جائے اس نے فورا ًہاں کردی ، میرگٹ میں تمام فراریوں نے یوسف کے رشتے کی خوشی میں جشن منایا ، پسند خان جو کسی سفر پہ تھا اسے یوسف کی بدل خان کی بیٹی سے رشتے کی حال معلوم ہوا وہ آگ بگولہ ہوگیا کیونکہ پسند خان خود بدل خان کی بیٹی سے رشتہ کرنا چائتا تھا ، غصے کی حالت میں پسند خان میرگٹ کے بجائے ناراض ہوکر مغلی چلاگیا ، میرگٹ میں سردار گوہر خان کو پسند خان کی ناراضی کی خبر ملا تو وہ پریشان ہوگیا، کمبر نے کہا اپ کو پسند خان کے پاس آدمی بھیج کر اسے منانا چائیے کیونکہ انگریز اسے اپ کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں پسند خان کو اپ کی کمزوری کا بخوبی علم ہے ، گوہر خان نے کہا کہ پسند خان اب تک انگریزوں کے چنگل میں پھنس چکا ہوگا اگر وہ واپس آجائے بھی میں اب اس پر بھروسہ نہیں کرسکتا، قلات میں انگریزوں کا قائم مقام پولیٹیکل ایجنٹ میسوریر کو پسند خان کی گوہر خان سے علیحدگی کی خبر ملا تو اس نے پسند خان سے ساز باز شروع کردیا، پسندخان گوہر کی بغض میں فورا میسوریر کی جال میں پھنس گیا ، میسیوریر نے فورا پسند خان کو لے کر سبی میلے میں انگریز فوجی قیادت کے سامنے پیش کردیا ، آنگریز فوجی قیادت کے سامنے پسند خان نے گوہر خان کی عسکری طاقت اور کمزوریوں کو کھل کر بیان کیا ، اور یہ بھی بتایا کہ اگر آپ لوگ زہری کے علاقے کو میرے حوالے کردو میں گوہر خان سے لڑنے کے لیے تیار ہوں ، انگریزوں نے پسند خان کو زہری کے لیویز تھانے کی انتظامات حوالے کرکے جمعدار عبدالکریم زرک زی کو اس کے ساتھ زہری روانہ کردیا ، پسند خان اور جمعدار عبدالکریم سبی سے روانہ ہوکر زہری کے قریب پہنچ گئے عبدالکریم نے کہا کہ زہری جانے کا مطلب ہے موت کے منہ میں جانا ، کیونکہ گوہر خان غزبناک ہوکر ہم پھر حملہ کرے گا ، عبدالکریم کے باتیں سن کر پسند خان کی حوصلے بھی پست ہوگئے کیونکہ اسے اپنے بھائی کی مزاج معلوم تھا ، لیکن پھر بھی پسند خان اور عبدالکریم اپنے مسلع لوگوں کے ساتھ زہری میں داخل ہوگئے ، گوہر خان کو پسند خان کی آنگریزوں سے سودے بازی کی خبریں مل رہا تھا ، اب جب پسند خان زہری میں داخل ہوگیا تو گوہر خان آگ بگولہ ہوگیا ، اس نے فورا حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ، کمبر نے کہا کہ اپ ہوش سے کام لو اپ کو گھیرنے کا یہ انگریزوں کی کوئی چال ہوسکتا ہے ہمیں کچھ دن انتظار کرکے حکمت عملی بنانا ہوگا ، گوہر خان نے کمبر کی کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا اگر میں نے آج ہی پسند خان پر حملہ نہیں کیا تو انتقام کی یہ جنون آج رات مجھے ہلاک کردے گا ، گوہر خان کمبر ، یوسف اور فراریوں کو لے کر زہری کی طرف تیزی سے روانہ ہوگیا ، پسند خان اور عبدالکریم لیویز تھانے میں بیٹھے ہکہ پی رہے تھے ، عبدالکریم نے پوچھا کہ انگریزوں کی اتحادی بننے سے اپ کی کیا مقاصد ہے ، پسند خان نے کہا کہ میں انگریزوں سے مطالبہ کروں گا کہ یوسف کی جگہ مجھے سرسرداران جھالاوان بنایا جائے ، عبدالکریم نے پوچھا اپ کیا سمجھتے ہو گوہر خان آپ کو سکون سے سرداری کی منصب پہ بیٹھنے دے گا ، پسندخان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ گوہرخان شدت جنون میں اس مقام پہ پہنچ چکا ہے جہاں سے موت چند قدموں کے فاصلے پہ ہے ، انگریز بہت جلد گوہر خان کو مار دینگے اور پھر جھالاوان میں انگریزوں کی مدد سے میں سیاہ و سفید کا ملک بن جاوں گا ، مجھے پوچھنے والا بھی کوہی نہیں ہوگا خان محمود خان میری کے محل میں کنیزوں کی بانہوں میں مدھوش ہے اسے سیاست اور حکومت سے کوہی دلچسپی نہیں ، پسند خان اور عبدالکریم باتیں کررہے تھے کہ لیویز تھانے پر اندھا دھند فائرنگ شروع ہوگیا ، پسند خان کی پہرہ دار تھانے کی دیوار کی چوکی پہ بیٹھا تھا گولی لگنے سے وہ پسند خان کے سامنے گرگیا ، پسند خان نے کہا کہ گوہر خان بہت غضبناک ہے اس وقت فرار ہونے میں سمجھ داری ہے ، عبدالکریم اور پسند خان موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ، گوہر خان نے لیویز تھانے کو لوٹنے کے بعد آگ لگاکر خاکستر کردیا ، پسند خان اور عبدالکریم سیدھا قلات میں میسوریر کے پاس پہنچ گئے اور گوہر خان کے خلاف امداد طلب کرلیا ، میسوریر نے انگریزی فوج کو تیاری کا حکم دے دیا ، کمبر نے گوہر خان سے کہا کہ پولیٹیکل ایجنٹ جوابی حملہ ضرور کرے گا ہمیں زہری کے کھلے میدان کے بجائے سلمانجو میں مورچہ بندہوکر مقابلہ کرنا چائیے وہاں انگریز فوج آسانی سے ہمارے بندوقوں کے نشانے پہ ہوگا اور ہمارے مورچے محفوظ رینگے اس طرح انگریز فوج جلد پسپا ہوگا ، گوہر خان اپنے لشکر کو لے کر سلمانجو کی طرف روانہ ہوگئے اور فورا مورچہ بندی شروع کردیا، میسوریر انگریزی فوجی دستے اور پسند خان کی سپائیوں کے ساتھ زہری کی طرف روانہ ہوگئے ، زہری پہنچتے ہی میسوریر کو معلوم ہوا ہے کہ گوہر خان سلمانجو میں موچہ بند ہے اس نے سیدھا سلمانجو کا رخ کرلیا ، سلمانجو پہنچتے ہی گوہر خان اور فراریوں نے انگریز فوج پہ زبردست حملہ کردیا ، میسوریر نے پسند خان کو آگے بڑھنے کا حکم دے دیا ، پسند خان اپنے لوگوں کے ساتھ آگے بڑھنے لگا ، کمبر نے میسوریر کو دیکھا تو اس نے سوچا اگر پولیٹیکل ایجنٹ مارا جائے بہت بڑا خوف پھیلے گا ، کمبر چند فراریوں کے ساتھ اپنے مورچہ سے نکل کر گھٹنوں پہ چلتے ہوئے میسوریر کے دستے پہ حملہ کرتا رہا ، میسوریر کمبر کی حملوں کو برداشت نہیں کرسکا اور پسپا ہوکر قلات کی طرف فرار ہوگیا ، پسند خان نے میسوریر کو فرار ہوتے ہوئے دیکھا وہ بھی ہمت ہار کر قلات کی طرف فرار ہوگیا ، رات کو گوہر خان نے سلمانجو میں قیام کیا ، کمبر اور یوسف گوہر خان کے پاس بیٹھے تھے ، یوسف نے کہا کہ کل ہمیں واپس میر گٹ کی طرف کوچ کرنا چائیے ، کمبر نے کہا کہ اب جنگ نے نیا شکل اختیار کر چکا ہے ہمیں میرگٹ کے بجائے ملخور جانا چائیے سردار خدانی نے مدد دینے کا وعدہ کیا ہے ، ہمیں تیزی سے اپنے مالی اور عسکری طاقت کو بڑھانا ہوگا کیونکہ میسوریر کی آج کے پسپائی سے انگریز حکومت بہت بھیانک ہوگا اور انگریز فوج مزید تیاری کے ساتھ آئینگے اور کل ہم زہری میں خان کے حمایتی لوگوں کو لوٹ کر خڑزان اور عازیفین کے لیویز تھانوں پر بھی حملہ کردینگے ، اگلے دن گوہر خان نے زہری کو تاراج کرکے تمام لیویز تھانون پر حملہ کردیا بہت سے سپائیوں کو قتل کردیا ، جب زہری کی تبائی کی یہ خبرین قلات پہنچی تو میسوریر نے جھالاوان کی تمام سرداروں کا جرگہ طلب کرلیا ، جرگے میں میسوریر نے کہا کہ اپ لوگ یوسف کے بجائے پسند خان کو سرسردار جھالاوان کی حثیت سے دستاربندی کرو اور مشترکہ قباہل کی لشکر تشکیل دے کر گوہر خان کے خلاف لشکر کشی کرو کیونکہ گوہر خان امن و امان کے لیے بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے ، گوہر خان کی موجودگی انگریز حکومت ،خان قلات سمیت تمام سرداروں کے لیے خطرناک ہے، سردار رستم خان محمد حسنی ، سردار فقیر محمد بزنجو اور سردار شہباز خان گرگناڈی نے تقریر کرکے گوہر خان کیخلاف لشکر کشی کی مخالفت کردی اور اسے زہریوں کا اندرونی معاملہ قرار دے دیکر مداخلت نہ کرنے کی مشورہ دیا ، میسوریر نے جب دیکھا کہ جرگہ میں اکثریت گوہر خان کے خلاف جانے کے لیے تیار نہیں ہے تو میسوریر نہیں کہا کہ برطانوی حکومت سرداروں کو ماہوار وظیفہ اس شرط پہ دے رہا ہے کہ وہ برطانوی مفادات کے لیے کام کرینگے اگر اپ لوگ برطانوی مفادات کیخلاف گوہر خان ظیفہ بھی بند ہونگے اور اپ لوگوں کی خاندانوں میں سے کسی اور کو اپ لوگوں کی جگہ سردار بھی بنایا جائے گا ، میسوریر کی دھمکی سن کر سب سردار خاموش ہوگئے اور سب نے متفقہ طور پر پسندخان کو سرسردار جھالاوان تسلیم کرلیا اور یہ بھی معاہدہ ہوگیا کہ گوہر خان کو کسی طرح کا مدد یا پناہ نہیں دینگے ، البتہ سردار رستم خان محمدحسنی ، سردار فقیر محمد بزنجو اور سردار شہباز خان گرگناڈی نے اعلان کیا کہ ہم پسند خان کو سردار جھالاوان تسلیم کرینگے لیکن گوہر خان کے خلاف کسی بھی لشکر میں شامل نہیں ہونگے ، میسوریر نے جھالاوان لیویز کے دو دستہ صوبیدار کرم خان اور جمعدار فیض محمد تراسانی کی کمان میں پسند خان کے ساتھ زہری بھیج دیا ، پسند خان کی اپنے مسلع لوگوں کا دستہ بھی ساتھ تھا ، ان کے پیچھے انگریزی فوج کا ایک دستہ بھی پسند خان مدد کے لیے بھیج دیا ، جب گوہر خان کو اس لشکر کی آنے کی اطلاح ملا کمبر نے کہا کہ ہمیں درہ سوہندہ میں مورچہ بندہ ہوکر اس لشکر کا راستہ روکنا ہوگا ، گوہر خان نے فراریوں کو درہ سوہندہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔ (جاری ہے)