گزشتہ دنوں غیر قانونی طور پر مسقط جانے کی کوشش کے دوران پاکستانیوں کی کشتی پھنس جانے سے 3 مسافر جاں بحق ہوگئے جبکہ 17 کو ریسکیو کرلیا گیا۔
غیر قانونی طور پر مسقط جانے کی کوشش کرنے والے پاکستانیوں کی کشتی ایرانی سرحد کے قریب گہرے سمندر میں پھنس گئی، راستہ بھٹک جانے سے مسافر کئی دن تک بھوکے پیاسے رہے،کشتی میں سوار 17افراد کو پاکستانی ماہی گیروں نے ریسکیو کر کے ایرانی سرحد تک پہنچایا۔ ضلعی انتظامیہ گوادر کے مطابق 20 پاکستانی غیرقانونی طور پر ایران کے راستے مسقط جانے کی کوشش کے دوران کشتی خراب ہوجانے پر گہرے سمندرمیں راستہ بھٹک گئے تھے ،اس دوران شکار کے لیے گہرے سمندر میں موجود پاکستانی ماہی گیروں نے کشتی دیکھ کر اس میں مسافروں کو کھانا اورپانی فراہم کیا اور انہیں محفوظ طریقے سے ایرانی سرحد تک پہنچایا۔
کشتی میں سوار افراد نے بتایا کہ وہ 20دن سے سمندرمیں بھوک اورپیاس کا مقابلہ کر تے رہے اس دوران ان کے 3 ساتھی بھی انتقال کر چکے تھے۔
ڈی سی گوادر کا کہنا ہے کہ قانونی تقاضے پورے کر کے تمام 17 مسافروں کو واپس ایف آئی اے کے ذریعے پاکستان لایاجائے گا۔
یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ غیرقانونی طور پر بیرونی ممالک جانے والے پاکستانی کسی حادثے کی بھینٹ چڑھے ہوں۔ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ پاکستان سے بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ جانے والے درجنوں پاکستانی سمندری حادثوں، انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں فائرنگ یا یورپ کے غیرمحفوظ لمبے زمینی اور سمندری سفر کے دوران بھوک اور موسمی حالات کی وجہ سے کسمپرسی کی حالت میں جان گنواتے رہے ہیں۔
ہر برس کم از کم 20 ہزار لوگ غیرقانونی طور پر پاکستان سے یورپ اور دوسرے ممالک غیر قانونی راستوں سے جاتے ہیں، جن میں سب سے زیادہ صوبہ بلوچستان سے ایران اور ترکی کے راستے یونان اور اٹلی وغیرہ کا روٹ استعمال ہوتا ہے ۔
ان غیرقانونی تارکین وطن میں سے کئی دوران سفر سرحدی محافظوں کی گولیوں، سخت موسمی حالات، سمندری لہروں میں کشتیوں کے ڈوبنے یا غیرقانونی ایجنٹوں کے ساتھ معاوضوں کے تنازعات کے بعد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اب ایران سے ترکی پھر یونان تک سفر کرنے والے یونان میں ہی پھنس جاتے ہیں کیونکہ وہاں اب سرحد پر بہت زیادہ سختی کی گئی ہے ، ترکی تک پہنچنا پاکستانیوں کیلئے بہت مشکلات کا سبب بن رہا ہے اب اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ انسانی اسمگلرز نے ایران سے مسقط میں روزگار کیلئے معصوم نوجوانوں کو جھانسہ دینا شروع کردیا ہے کہ وہاں انہیں پرکشش ملازمت اور بہترین زندگی گزارنے کے مواقع میسر آئینگے ۔بہرحال انسانی اسمگلرز کا نیٹ ورک بہت منظم اور مضبوط ہے جو پاکستان کے شہری، دیہی علاقوں سے لے کر بیرون ملک تک کام کرتا ہے جو چند روپوں کے عوض انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں ۔
اب مسقط جانے والے حادثے کے شکار لوگ جب پاکستان پہنچیں گے تو صحیح حقائق سامنے آئینگے کہ انہیں اس سفر کی طرف کون لے کر گیا، اس میں کون لوگ ملوث ہیں اگر یہ انسانی اسمگلرز کا کام ہے تو اب کے بار ان کے خلاف سخت کریک ڈاؤن پورے ملک میں کیا جائے تاکہ انسانی جانوں سے کھیلنے کا یہ سلسلہ بند ہو جائے۔ بہرحال آفرین ہیں گوادر کے ماہی گیروں کو جنہوں نے قیمتی جانوں کو بچایا ، یہ تعریف کے مستحق ہیں۔