|

وقتِ اشاعت :   June 29 – 2024

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آپریشن ’عزمِ استحکام‘ فوج کی نہیں بلکہ حکومت کی ضرورت ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ملک میں امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کی نئی لہر کے خاتمے کے لیے مجوزہ فوجی آپریشن پر سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائدین سے مشاورت جاری رہے گی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ’حکومت کی ذمہ داری بھی ہے اور یہ ذمہ داری لینی بھی چاہیے، یہ آپریشن فوج کی نہیں، ہماری ضرورت ہے۔‘

خواجہ آصف نے کہا کہ مقامی افراد کی ترقی کے لیے مختص رقم اور منصوبہ بندی میں کوتاہی کی گئی ہے، تاہم ان کے مطابق قبائلی عوام کا ایک بڑا حصہ اس آپریشن کے خلاف نہیں ہے۔

یاد رہے کہ 2 روز قبل امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکا (وی او اے)‘ کو اپنے انٹرویو میں خواجہ آصف نے واضح کیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے جب کہ آپریشن ’عزم استحکام‘ کے تحت ضرورت پڑی تو کالعدم تنظیم کی سرحد پار پناہ گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’عزم استحکام کی پالیسی کوئی جلد بازی میں نہیں آئی ہے، اس کا پس منظر ہے، حالیہ مہینوں میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے لیکن ملک میں سیاسی ماحول کچھ اس قسم کا ہے کہ جماعتیں اور گروپس اپنے سیاسی فائدے کے لیے کوئی اسپیس نہیں دینا چاہتے اور میری دانست میں سیاسی مفادات ان کے لیے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آپریشن کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے جو بھی تحفظات ہیں انہیں دور کیا جائے گا اور حکومت اس معاملے کو اسمبلی میں بھی لے کر آئے گی تاکہ اراکین کے سوالات اور تحفظات کا جواب دے کر انہیں اعتماد میں لیا جاسکے اور یہ ہمارا فرض بھی ہے۔‘

پچھلے آپریشنز کے حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ ’میرا نہیں خیال کہ پچھلے آپریشنز میں کسی قسم کی کوئی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہو، اُس وقت بھی اور آج بھی افواج پاکستان سب سے بڑی اسٹیک ہولڈرز ہیں، وہ آج بھی جانیں دے رہے ہیں، آپریشن کے بعد سویلین حکومتوں کو جس طرح سے کردار ادا کرنا چاہیے تھا اُس میں تمام حکومتیں ناکام رہی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم آپریشن عزم استحکام کو کامیاب بنانے کے لیے چاہتے ہیں کہ اپوزیشن اور تمام سیاسی جماعتوں سے بات کی جائے اور اس کے خدوخال سے اُن کو آگاہ کریں، کابینہ نے اس کی منظوری دے دی ہے، وہ چاہیں تو اسمبلی میں یا پھر آل پارٹیز کانفرنس میں اس حوالے سے بات کی جاسکتی ہے۔‘

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے نیشنل ایکشن پلان پر ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دی گئی تھی جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف، جے یو آئی (ف) سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے اس آپریشن کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا جب کہ وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کو آپریشن کے بارے میں گردش کرنے والی قیاس آرائیوں کے حوالے سے اعتماد میں لیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں کوئی فوجی بڑا آپریشن نہیں ہوگا۔

گزشتہ ہفتےوزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک پریس کانفرنس میں آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے سامنے آنے والے سیاسی جماعتوں کے تحفظات پر کہا تھا کہ ’آپریشن عزم استحکام کا ماضی کے آپریشنز سے موازنہ درست نہیں ہے، آپریشن عزم استحکام پر کابینہ اور پارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا‘۔