کراچی پر عرصہ دراز سے ایک ہی جماعت کاکنٹرول رہا ہے اور اس کا ووٹ بینک بھی محفوظ رہا ہے‘ 2001ء کے بعد یہی جماعت یعنی متحدہ قومی موومنٹ نہ صرف وفاق بلکہ سندھ میں بھی راج کرتی رہی تمام محکمہ اُن کے پاس رہے اوریہ ایک منظم تنظیم کے طور پر ابھر کر سامنے آئی‘ اس سے قبل شاید ہی متحدہ قومی موومنٹ اتنی مضبوط رہی ہو‘ پرویز مشرف کے دور حکومت میں متحدہ قومی موومنٹ کراچی کا اکلوتا وارث بن گیا اور اردو بولنے والوں کی بڑی اکثریت اُن کے ساتھ جڑگئی جو دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ پہلے وابستگی رکھتے تھے اس کی بڑی وجہ طاقت اور اختیارات دونوں ہی ہیں جو متحدہ قومی موومنٹ کے پاس تھے‘ بہرحال اب بھی اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جس کی مثال 2013ء کے جنرل الیکشن ہیں اور اس کے بعد بلدیاتی انتخابات میں بھی متحدہ قومی موومنٹ کے حصہ میں ووٹ پڑے‘ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں 2013ء کے دوران متحدہ قومی موومنٹ نے اپنی نشستیں حاصل کیں مگر ان کی چند نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کو کامیابی بھی ملی جو متحدہ قومی موومنٹ کیلئے الارمنگ ثابت ہوئی۔ پاکستان تحریک انصاف کو ملنے والے ووٹوں نے نہ صرف متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی بلکہ اُن کے قائد الطاف حسین کو بھی جھٹکا دے دیا اور الطاف حسین نے اپنی تقریر کے دوران جوا لفاظ دہرائے وہ کسی سیاسی جماعت کے قائد کو زیب نہیں دیتے جو ایک رد عمل کے ساتھ پریشانی کا سبب تھا۔ بہرحال متحدہ قومی موومنٹ کے مقابلے میں صرف دو جماعتیں ہی نظر آتی رہی ہیں جن میں اے این پی اور پاکستان پیپلز پارٹی مگر اب کی بار متحدہ قومی موومنٹ کو کراچی‘ حیدرآباد سمیت سندھ کے دیگر علاقوں میں دو دیگر جماعتوں کا سامنا بھی کرناپڑے گاان میں پاکستان تحریک انصاف اورنئی بننے والی پاک سرزمین پارٹی ہے‘ پاکستان تحریک انصاف نے اپنا اثر 2013ء کے الیکشن کے دوران دکھا دیا مگر اب کے بار پاک سرزمین متحدہ قومی موومنٹ کیلئے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئے گی جو صرف اردو بولنے والے علاقوں تک محدود رہے گی اور مصطفی کمال کمپنی کا ہدف بھی یہی ہے‘ مگر یہاں ایک بات واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کا راج ہو یا پاک سرزمین دونوں ہی لسانی بنیادوں پر سیاست کررہے ہیں اور آگے چل کر بھی یہی سیاست ہوگی کیونکہ مصطفی کمال کا راستہ بھی اسی طرف جاتا ہے‘ آج مصطفی کمال اینڈ کمپنی تمام برے کاموں کے الزامات متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین پر لگارہی ہے مگر جب تک جماعت میں شامل تھے اُس وقت تک وہ اُن کیلئے قائد تحریک تھے اور ان کی دفاع کیلئے جوشیلے انداز میں کرتے دکھائی دیتے تھے اگر انسانی ضمیر کی بات کی جائے اور خاص کر ایک ایسے عمر میں جو خود پختگی اور سیاسی بالیدگی کی ہوتی ہے جو طویل المدت سیاست سے جڑے رہنے کی بات ہے کیسے وہ اپنی ضمیر کو مار کر برے کاموں کو میڈیا میں آکر اچھائی سے تشبیہہ دیتے رہے ہیں جتنا قصور وار متحدہ قومی موومنٹ کا قائد یا وہ لوگ ہیں جنہوں نے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری سمیت دیگر سنگین جرائم کیے تو مصطفی کمال اینڈ کمپنی بھی اس گناہ کبیرہ میں شامل تھی جب معصوم نہتے عوام کا خون بہتا رہا اور شریف انسانوں سے بھتہ وصول کیاجاتا رہا اُس وقت تک ان کے ضمیر کیوں مرے ہوئے تھے ؟ جب انسان کے دل میں درد موجود رہتا ہے اور حقیقی سیاست کرنے کی خواہش ہوتی ہے تو وہ چند دنوں میں ہی اُس آرگنائزیشن کے اہداف اور عمل کو سمجھ جاتا ہے مگر ایک طویل سفر کے بعد آج انہیں یہ سب کچھ بہت برا لگ رہا ہے تب وہ ڈر کے مارے خاموش رہتے تھے اور قائد سمیت دیگر جرائم پیشہ افراد کی دفاع کیلئے پریس کانفرنسز‘ ٹاک شوز میں جو زبان استعمال کرتے تھے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے‘ بہرحال مصطفی کمال اینڈ کمپنی کے پیچھے کون سی طاقت ہے مختلف قیاس آرائیاں سامنے آرہی ہیں مگر بات وہیں آکر رُک جاتی ہے کہ کراچی کی سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی تبدیلی کی باتیں محض پروپیگنڈہ ہی ہیں کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ کے بطن سے جنم لینے والی جماعت بھی وہی کارنامہ سرانجام دے گی جو اس سے قبل متحدہ قومی موومنٹ کرتی آئی ہے ہاں البتہ یہ ضرور ہوگا کہ ’’را‘‘ جیسے الزامات مصطفی کمال اینڈ کمپنی پر نہیں لگیں گے مگر طرز سیاست وہی رہے گی۔ فی الحال شروعات ہے پھر راستہ بھی وہی اور منزل بھی نائن زیرو ‘ اب مصطفی کمال اینڈ کمپنی کیلئے آگے کس طرح کے چیلنجز سامنے آئینگے اور نتائج کیا نکلیں گے فی الوقت کچھ کہنا بہت ہی مشکل ہے۔