زیارت: ایڈ بلوچستان (AIDB) اور پبلک اکاؤنٹبلٹی فورم (PAF) کے اشتراک سے ضلع زیارت میں ’’رائٹ ٹو انفارمیشن‘‘ کے موضوع پر ایک اہم سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیمینار کو نیشنل اینڈومنٹ فار ڈیموکریسی (NED) کی مالی معاونت حاصل تھی۔
سیمینار میں پبلک اکاؤنٹبلٹی فورم کے نمائندگان کوئٹہ سے خصوصی طور پر شریک ہوئے جبکہ زیارت کے مختلف طبقات، بشمول صحافی، سماجی کارکن، اساتذہ اور سول سوسائٹی کے ارکان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے کیا گیا، جس کے بعد ایڈ بلوچستان کے نمائندے عادل جہانگیر نے ادارے کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے دیگر صوبوں میں 2013 سے رائٹ ٹو انفارمیشن قانون نافذ العمل ہے، تاہم بلوچستان میں تاحال اس قانون پر مؤثر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
سیمینار کی میزبانی وطن یار خلجی، چیف ایگزیکٹو افیسر احساس پاکستان، نے کی۔ انہوں نے شرکاء کو بارہا اس قانون کی افادیت اور اس کے ذریعے عوامی مسائل کے حل کے امکانات سے آگاہ کیا۔
رائٹ ٹو انفارمیشن پر تفصیلی پریزنٹیشن معروف RTI ایکٹوسٹ میر بہرام لہڑی نے دی۔ انہوں نے 2015 سے 2025 تک کی وہ کوششیں بیان کیں جو ایڈ بلوچستان اور پبلک اکاؤنٹبلٹی فورم کی جانب سے اس قانون کے فروغ کے لیے کی گئیں۔
سینئر صحافی و RTI ایکٹوسٹ میر بہرام بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ادارے تاحال غیر جوابدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مستند معلومات تک رسائی نہ ہونے کے باعث صحافیوں کو صوبے کے اصل مسائل اجاگر کرنے میں دشواری ہوتی ہے، جس کا فائدہ شرپسند عناصر اور بیرونی پروپیگنڈا مشینری اٹھا رہی ہے۔
پبلک اکاؤنٹبلٹی فورم کے رکن اور بلوچستان یونیورسٹی کے نمائندہ *صادق سمالانی* نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس فورم کے توسط سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے دورے کرنے کا موقع ملا، جہاں ترقی اور شفافیت قابل دید ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بلوچستان میں RTI قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث صوبہ ترقی میں پیچھے رہ گیا ہے۔
زیارت سے تعلق رکھنے والے محمد ہاشم، سی ای او رہبر سوسائٹی، نے کہا کہ ایڈ بلوچستان اور PAF کی زیارت آمد قابل ستائش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سیمینار کے ذریعے زیارت کے عوام کو ایک ایسا ٹول میسر آیا ہے جس سے وہ اپنے دیرینہ مسائل حل کر سکتے ہیں۔
سماجی کارکن عیسیٰ خان نے بھی سیمینار سے خطاب کیا اور کہا کہ اب بین الاقوامی اداروں اور سماجی تنظیموں کو صرف کوئٹہ تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ بلوچستان کے دیگر اضلاع میں بھی سرگرمیاں تیز کرنی چاہئیں۔
Leave a Reply