|

وقتِ اشاعت :   May 25 – 2016

قلات : ترقی و خوشحالی کے ہرگز مخالف نہیں لیکن بلوچ قوم کو اقلیت میں بدلنے سے روکنے کیلئے قانون سازی کی جائے ہماری حق حاکمیت اور ملکیت کو تسلیم کیا جائے وڈھ کے مرچوں کی تاثیر اتنی زیادہ ہے ہمیں اندازہ نہیں تھا میاں صاحب سمجھے ہیں کہ وہ حاصل بزنجو کو وزیر بنا کر گوادر پورٹ سے فائدہ اٹھائیں گے یہ ان کی خام خیالی ہے جنرل مشرف نے ہمیں اپنے عدالتوں میں پیش کیا ہم ثابت قدم ہو کر پیش ہوئے حالات کا سامنا کیا لیکن آج جنرل مشرف عدالتوں میں پیش ہونے کے بجائے دم دبا کر دبئی فرار ہو گئے لاکھوں کی تعدا د میں افغان مہاجرین کی باعزت انخلاء کو یقینی بنایا جائے ا ن خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل نے قلات میں تاریخ کے عظیم الشان جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اس موقع پر پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ،بی ایس او کے مرکزی چیئرمین نذیر بلوچ ،،مرکزی ڈپٹی سیکرٹری لال جان بلوچ ،پرنس آغا موسیٰ جان بلوچ ساجد ترین ایڈووکیٹ ، رکن صوبائی اسمبلی میر حمل کلمتی ، عبدالرؤف مینگل ، منیر جالب بلوچ ،سابق ایم این اے سید عبدالناصر شاہ ، سردار صدیق دہوار ، خواتین سیکرٹری زینت شاہوانی، میر منظو رلانگو ، میر مراد جان بلوچ ، ضلعی صدر خیر جان عمرانی نے بھی خطاب کیا جبکہ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض احمد نواز بلوچ ، ،راشدہ ہارون ،عبدالفتاح علی زئی جبکہ قراردادیں سردار زادہ نعیم دہوار سے پیش کیں اس موقع پر سیکرٹری جنرل سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی ، سینئر صدر ملک عبدالولی کاکڑ ، نذیر بلوچ ، ملک نصیر شاہوانی ، منظور بلوچ ، ڈاکٹر عزیز بلوچ ، موسیٰ بلوچ ، ڈاکٹر قدوس بلوچ ،خورشید جمالدینی‘ غلام نبی مری ، حاجی زاہدحسین بلوچ ،حاجی ہاشم نوتیزئی ، حاجی وزیر خان مینگل ‘سردار عمران بنگلزئی،عبدالرحمان خواجہ خیل،حاجی ابراہیم پرکانی ،حاجی بابو نویتزئی‘میر غلام رسول مینگل، گامن مری ‘نوروزمری ‘ عطاء اللہ مینگل ،احمد نواز بلوچ، خالد شاہ دلسوز ، ہدایت بلوچ ، صادق غلامانی ، و دیگر بھی موجود تھے اس موقع پر شکیلہ نوید دہوار ، فوزیہ مری سمیت خواتین کی بڑی تعداد بھی موجود تھی انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف اور ان کے حواریوں نے ہمارے آنکھوں پر پٹی باندھ کر صعوبتیں دیں اور پابند سلاسل کیا اور اپنی عدالتوں میں پیش کیا مگر ہم نے ثابت قدمی کے ساتھ تمام حالات کے مقابلہ کیا آج مشرف خود اپنی ہی عدالتوں سے راہ فرار اختیار کر کے دبئی چلے گئے ہیں آج بھی بلوچ اپنے پیاروں کے منتظر ہیں لاپتہ بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جا رہی ہیں حالات بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں ہم تمام حالات کا بلوچ جوش و جذبے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں آج بھی اپنے قوم کے باسیوں کیلئے ثابت قدمی سے جدوجہد کر رہے ہیں جب بھی ہم نے حق کی بات کی اور اپنے حقوق مانگے تو ہمیں غدارکہہ کر پکارا گیا ہم کمزور اور نہتے ضرور نہیں مگر ہم نے کبھی بھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا ہم ایسی ترقی و خوشحالی کو ہرگز قبول نہیں کریں گے جس سے ہماری تاریخ ، تہذیب و تمدن ملیامیٹ ہو جہاں پر ہمارے فرزند پانی کے بوند بوند کو ترسیں اور انہیں اپنے وطن سے بے دخل کیا جائے ہمارے وسائل غیر بلوچ مستفید ہوں ہم ترقی کے مخالف نہیں لیکن اپنی آنے والے نسلوں کے وسیع تر مفادات اور بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے روکنے کیلئے قانون سازی اور گوادر پورٹ کا اختیار چاہتے ہیں اگر ہمارے ان اہم مسائل کو حل نہ کیا گیا تو ترقی قبول نہیں کریں گے میاں صاحب اگر یہ سمجھتے ہیں کہ حاصل بزنجو کو وزارت دینے سے بلوچستان کے مسائل حل ہوں گے یہ کسی صورت ممکن نہیں مقررین نے کہا کہ متوسط طبقے کے دعویدار اگر پانچ سال اقتدار میں رہتے تو ٹینکوں، الماریوں ، بیکریوں اور نہروں سے روپے ملتے جنہوں نے قریبی رشتہ دار ، چچا ، ماموں اور دوستوں کو ٹھیکیدار بنایا اور ملازمتیں دیں اور انہی سے کمیشن بھی وصول کرتے رہے نیب جن کے کان پکڑ کر ان کو گرفتار کر رہی ہے انہوں نے اتنا کرپشن کیا کہ نوٹ گننے والی مشینوں سے بھی دھواں نکلنے لگا جیسے ڈیزل انجن دھواں دینے لگتی ہے بلوچستان میں سی پیک کے نام پر بلوچ عوام کو لوٹنے کی سازشیں بنائی جا رہی ہیں گوادر کے غیور بلوچوں کو اپنے ہی آبائی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے ایسی ترقی چاہئے امریکہ ، ہندوستان یا چائنا دے اسے قبول نہیں کریں گے حکمرانوں نے کبھی بلوچ قوم سے وفا نہیں کی بلکہ اس سرزمین کے وسائل ضرور لوٹے بلوچستان کے عوام کے سرمائے کو شیر مادر سمجھ کر ٹنکیوں میں چھپایا گیا اور بلوچ سرزمین کے فرزند جنہوں نے جانیں قربان کی وہ بچے اور نوجوان بغیر جوتے پیوند شدہ کپڑے پہنے انسانی ضروریات سے محروم ہیں جب ہم اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں ان کو حل کرنے کی بجائے غداری جیسے القابات سے ہمیں نوازا جاتا ہے کیونکہ ہم نے ہمیشہ یہ کہا کہ بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں ، لاپتہ افرادکی بازیابی ا ور انسانی حقوق کیلئے آوازیں بلند کی ہیں بلوچستان میں ظلم و زیادتیاں بند کی جائیں ڈھائی سالہ دور حکومت میں توتک واقعہ ، اجتماعی قبروں کی برآمدگی انسانیت سوز اقدام ہے مگرافسوس کہ تحقیقات کیلئے جن لوگوں کمیشن بنائی اور رپورٹ منظر عام لانے کا دعویٰ کیا مگر رپورٹ میں ضمیر فروشوں نے بلوچ فرزندوں کے بارے میں من گھڑت باتیں رپورٹ میں لکھیں اور اپنے کرتوتوں اور اعمال کو چھپایا آج بلوچستان کو ان حالات تک پہنچنے والے اب پنجاب میں جا کر پارٹی کی تنظیم کاری کر رہے ہیں پنجاب والے اتنے سادہ لوگ نہیں انہوں نے ہمارے بزرگوں کو دھوکہ دیا اب شاید خزانہ لیکس میں ملوث لوگ اب بلوچ عوام سے منہ چھپا کر راہ فرار اختیار کر چکے ہیں لیکن ان کے من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی دعوے محض دعوے ہی ثابت ہونگے انہوں نے کہا کہ ہم کسی قوم ، نسل کے خلاف نہیں ان کے وسائل انہیں مبارک ہوں ان وسائل سے ان کی سات نسلیں مستفید ہوں لیکن ہمیں بھی بلوچستان کے وسائل پر مکمل اختیار دیا جائے تاکہ ہم بھی اپنے عوام کی حقیقی خوشحالی اور عزت و دستار کی نگہبانی کر سکیں مقررین نے کہا کہ ہم گوادر میں وہاں کے ماہی گیروں ، بلوچوں کو انسانی بنیادی ضروریات کی فراہمی چاہتے ہیں اس جدید میں لوگ پانی جیسے بنیادی ضروریات سے محروم ہیں تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں جدید تعلیمی ادارے بنانے کی ضرورت ہے وہاں کے ماہی گیر جن کی ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ ہے انہوں نے پرتگالیوں کا مقابلہ کیا ساحل بلوچ کا دفاع کیا جانوں کا نذرانہ پیش کیا آج وہ ماہی گیر نان شبینہ کے محتاج بنتے جا رہے ہیں ان کیلئے حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے بلکہ صرف دعوؤں تک محدود ہے ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور میں ڈیڑھ لاکھ ایکڑ زمین جو بلوچ فرزندوں کی تھیں انہیں سرکاری زمین قرار دے کر بلوچوں کو اپنے ہی زمینوں سے بے دخل کر دیا جو ان کے آباؤاجداد کی تاریخی زمینیں تھیں ہم گوادر میں انسانی بنیادی ضروریات چاہتے ہیں تب ہی حقیقی ترقی ممکن ہے جس میں بلوچ قوم کو ترجیح دی جائے ایسا نہ ہو کہ بلوچ عوام بھوک افلاس سے مررہے ہیں اور دوسرے لوگ اپنے ساحل وسائل سے مستفید ہوں مقررین نے کہا کہ بی این پی بلوچستان میں عوام کے حقوق کی ضامن سب سے بڑی قومی جماعت ہے جو بلوچستان میں عوام کے حقوق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں عوام کو سکول ، ہسپتال ، بجلی و گیس سمیت تمام سہولیات کی فراہمی کیلئے جدوجہد کر رہی ہے علم و قلم کو ہتھیار بنا کر معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لانے کیلئے کوشاں ہیں حکمرانوں نے 40ارب روپے کی کرپشن کر کے بلوچستان کے تعلیم ، صحت کے فنڈ کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹا ماضی میں سردار عطاء اللہ خان مینگل ،سردار اختر مینگل کے خلاف سازشیں کی گئیں کہ انہیں سیاست سے دور رکھ جائے لیکن بلوچ قوم نے انہیں سیاسی و اخلاقی شکست دی مقررین نے کہا کہ بی این پی قومی اجتماعی مفادات کے تحفظ کی جدوجہد کر رہی ہے ہماری جدوجہد مصلحت پسندی کا شکار نہیں رہی 40لاکھ افغان مہاجرین کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے مہاجر چاہے کسی بھی نسل ، مذہب ، زبان سے تعلق رکھتا ہے اسے بے دخل کیا جائے اب تو جعلی شناختی ، پاسپورٹ بننے کے حوالے سے بہت سے ثبوت اور شواہد بھی مل رہے ہیں اس حوالے سے مزید تحقیقات کو دوام دینے کی ضرور ت ہے بی این پی کے سامنے سیاست ایک عبادت ہے ہم ان لوگوں میں نہیں جو یہ کہہ ہماری ناک کے نیچے کرپشن ہوئی اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلا یہ متوسط طبقے کے دعویدار تھے کہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سیکرٹری اتنی بڑی رقم اپنی مرضی سے نکلوائے جھوٹ بولنے کیلئے ایک منطق کی ضرورت ہوتی ہے جنرل مشرف نے ہمارے 18ماہ کی حکومت کی تحقیقات کرائیں اور سرتوڑ کوشش کی کہ کرپشن کے ثبوت ملے لیکن انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اب تو حکمرانوں نے بلوچستان میں تاریخی کرپشن کی لیکن آج بھی یہ لوگ ڈھٹائی کے ساتھ نیب کے سامنے پیش ہونے کے بجائے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں مقررین نے کہا کہ جو لوگ کہتے تھے کہ بی این پی کے قائد سردار اختر جان مینگل کی مشرف کے دور میں پابند سلاسل ہونے کے بی این پی ختم ہو گئی اور جب پارٹی کے سیکرٹری جنرل حبیب جالب بلوچ کو شہید کیا گیا اور ہمارے دائیں بازو تھے جب نور الدین مینگل کو شہید کیا گیا جو ہمارے اہم رہنماء تھے جس آغا ورنا نوروز ، حاجی عطاء اللہ محمد زئی ، سلام ایڈووکیٹ ، جمعہ خان رئیسانی ، حاجی لیاقت سمیت کے پارٹی کے سینکڑوں لوگوں کو شہید کیا گیا تو بہت سے لوگ یہ کہتے تھے کہ شاید اب بھی بی این پی دیوار سے لگ جائے گی لیکن ایسا ممکن نہیں آج ہمارے پاس کوئی سرمایہ نہیں لیکن آج شہید نوری نصیر خان اور شہزادہ عبدالکریم کے گھرانے آغا موسیٰ جان اور شہید بابو نوروز کے فرزند نواب امان اللہ زہری سرمایہ ہے ہم نے گروہی مفادات کی سیاست نہیں کی ہم نے سیاست میں ٹینکیاں نہیں بھری ہم عوام کے حقوق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں عوام کی حقیقی ترقی و خوشحالی ہمارا مشن ہے جس کیلئے ہم جدوجہد کر رہے ہیں آج جو لوگ کہتے تھے کہ پارٹی ختم ہوئی آج قلات کے اس عظیم الشان جلسہ عام نے ان لوگوں کو شکست سے دوچار کر دیا آج بلوچ عوام بلوچستان کے ساتھ ہیں چالیس لاکھ افغان مہاجرین ہرگز قبول نہیں کریں گے ۔