واپڈا کو بھی سیاسی زنگ لگ چکا ہے ٹرانسفارمرز سے لیکر تار اور کمبے بھی سیاسی ہوگئے ہیں اگر کسی کو روشنی درکار ہے تو اقتدار میں شامل جماعتوں کا حصہ بن جائیں انھیں ٹرانسفارمرز اور کمبے مل سکیں گے بصورت دیگر مرمت کا بوجھ اٹھا کر شہر شہر گھومنا پڑے گا پنجگور میں اس وقت واپڈا بحیثیت ایک قومی ادارہ اپنی اہمیت کھو چکا ہے کمبے ٹرانسفامرز اور تار بھی اب ان کی ملکیت نہیں رہے جہاں وہ محسوس کرے کہ یہاں ٹرانسفار مر لگانا ہے ا ب یہ ممکن نہیں رہا کیونکہ ادارے کی حیثیت صرف اور صرف ایک مزدور کی رہ گئی ہے جہاں اور جس جگہ مالک حکم کرے گا اسے تابعداری کرنا ہوگی۔ پنجگور میں سردست جو مسئلہ سنگین ہے وہ ہے ٹرانسفامرز کا بار بار جل جانااور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ادارے کا جو ورکشاپ ہے وہ بند ہے جب کسی علاقہ کا ٹرانسفامرز جل جاتا ہے تو اہل محلہ مل کر چندہ کرتے ہیں اس کے بعد ٹرانسفارمر کو لے جا کر کسی پرائیوٹ مکینک کے حوالے کردیتے ہیں اور مکینک پھانسی گھاٹ کے جلاد کی طرح ان کی کال ادھیڑ دیتی ہے پنجگور میں واپڈا کی چار دیواری کے ساتھ ایک سے زائد ورکشاپ ہیں جو جلے ہوئے ٹرانسفارمرز کی مرمت کرتے ہیں فی ٹرانسفارمر چالیس سے اسی ہزارروپے مرمت کے وصول کرتے ہیں جن کے پاس دینے کے لیے پیسے ہوتے ہیں وہ تو پرائیویٹ ورکشاپس کے ناز اور نخرے اٹھاتے ہیں مگر ایسے بھی علاقے ہیں جہاں کے مکین صبح سے شام تک پیٹ کی آگ بجانے میں مصروف رہتے ہیں ان کے لیے خراب ٹرانسفارمر کی مرمت موت سے بھی زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے کیونکہ جب وہ صبح نکل کرکچھ کما کر گھر لوٹتا ہے اس امید پر کہ بچوں کی کم از کم ایک ٹائم پر تو پیٹ بھر جائے گا مگر اسے کیا پتہ کہ ایک دن پہلے بنایا گیا ٹرانسفارمر ایک بار پھر جل کر خراب ہوگیا ہے اور اس کی مرمت کے لیے پھر سے اتنی رقم درکار ہے اور اس کے حصے کے بھی چند ہزار بنتے ہیں اگر وہ ادا کرے گا تو اسے بجلی نصیب ہوگی اگر نہیں تو خود کے لیے لالٹین کا بندوبست کریں ٹھنڈا پانی نہ صحیح کم از کم روشنی تو مل سکے گی اور اس کا ایمان بھی اس بات پرمضبوط ہوگاکہ شاہد یہ برے دن انسانوں کی نا انصافیوں کی وجہ سے انھیں نصیب نہیں ہورہے بلکہ ازل سے مقدر خراب ہونے کی وجہ سے ہے اور ہم برملا یہ کہتے ہیں کہ ہم قوم پرست اور عوام دوست ہیں آج تک قوم پرستی کا سلوگن میرے سمجھ میں نہیں آیا کہ قوم پرستی کی سیاست کن شرائط کے تحت ہوتی ہے پنجگور کی سو فیصد آبادی بلوچ ہے اور جتنی بھی قوم پرست جماعتیں ہیں وہ بلوچیت کی سیاست کے دعویدار ہیں مگر کسی کا اعمال قوم پرستی کو چھو کر بھی نہیں گزرا، ایک یونین کونسل کے ایک حصے کو سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ٹرانسفارمر اور کمبے تو مہیا کئیے جاتے ہیں مگر دوسرے حصے کو جو ضرورت مند بھی ہے اس وجہ سے نظر انداز کیا جاتا ہے کہ وہ ہماری سیاسی سوچ اور فکر سے باغی ہیں ہم کیوں انھیں اپنے فنڈز سے سہولتیں فراہم کریں یہ تو ہمارے جیالے ورکروں کا حق ہے کیوں نہ ہم یہ سہولتیں انھیں مہیاکریں جو کل ہمیں ووٹ دینگے قوم پرست تو وسیع نظر ہوتا ہے وہ اپنی قوم کا سوچنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی تکالیف کا بھی احساس کرتا ہے کسی بھی نمائندے کو ملنے والی فنڈز پورے حلقے کے عوام کی ملکیت ہوتی ہے اگر اسے اس بات پر نظر انداز کیا جائے کہ یہ ہماری جماعت اور کمیونٹی سے تعلق نہیں رکھتا ہے ہم اسے کچھ نہیں دینگے یہ خود نمائندے کی حلف سے روگردانی کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ عوام تو عوام ہوتا ہے اور ملک کے آئین نے اسے یہ حق دیا کہ وہ حکومتی وسائل سے برابر کا حصہ دار ہے ادارے تو قومی ہوتے ہیں ان کی کارکردگی کو محدود بنانے سے مزید مسائل پیدا ہونگے بجلی کے کمبے ٹرانسفارمرز اور تاروں کو ادارے کی ملکیت قرار دے کر اسے یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی حساب اور ضرورت سے انکی تنصیب کرے اور مزید کیسکو کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اپنا مزاج تبدیل کرکے بجلی کی ترسیل بہتر بنائے اور عوام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جائز بل ادا کریں تاکہ سسٹم بہترہوسکے پنجگور کے حلقہ بی بی 43میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں ٹرانسفارمرز خراب اور جل جانے کی وجہ سے دو دو ماہ سے بجلی نہیں ہے بے چارے لوگ روشنی کا بندوبست تو موم بتی سے کررہے ہیں مگر دیگر ضروریات زندگی خصوصا پانی کے لیے انھیں بے پناہ مسائل کا سامنا ہے بگ وارڈ خدابادان جو ایک گنجان آبادی والا علاقہ ہے رمضان المبارک سے پہلے اس کی بجلی ٹرانسفارمر کی خرابی کے باعث منقطع ہے مگر کروڑوں روپے کے فنڈز ان مصیبت زدہ لوگوں کے کام نہیں آرہے البتہ بااثر لوگ تو بادشاہ ہوتے ہیں انھیں ضرورت نہ بھی ہو تب بھی نیا ٹرانسفامر ان کا مقدر بن جاتا ہے
واپڈا ورکشاپ کی عدم فعالیت، عوامی مسائل میں اضافہ
وقتِ اشاعت : July 21 – 2016