آج کل بی ڈی اے ملازمین سے متعلق بحث چل رہی ہے بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی تعداد 400ہے جبکہ وزیراعلیٰ کو سمری بھیج دی گئی ہے اس میں تعداد 11سو سے بھی زیادہ ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ مفاد پرست عناصر جھوٹ بول رہے ہیں اور خصوصی طورپر رائے عامہ کو گمراہ کررہے ہیں جبکہ سرکاری دستاویزات میں11سو ملازمین کو روزگار فراہم کیا جارہا ہے ۔ اصولی طورپر بی ڈی اے ایک حکومتی ادارہ نہیں ہے اس کے نفع و نقصان سے حکومت بلوچستان کا کوئی تعلق نہیں ہے نہ ہی اس کے ملازم سرکاری ملازم تصور ہوتے ہیں ان کو کسی قسم کی مراعات اور سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں ،نہ ان کو حکومت نے ملازمت دی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی معاہدہ ہواہے۔ یہی صورتحال صوبے بلکہ ملک بھر میں تمام خودمختار اداروں کی ہے کہ وہ اپنی آمدنی اور اخراجات خود پورا کرتے ہیں وفاقی یا صوبائی حکومتوں کا ان سے کوئی واسطہ نہیں ہے لیکن بلوچستان میں آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے ۔ سردار عطاء اللہ مینگل کی اکثریتی حکومت کے بعد مقتدرہ نے کبھی اکثریت کی حکومت نہیں بننے دی اس کی سیاسی اور خصوصی وجوہات تھیں کہ صوبے کے تمام وزرائے اعلیٰ کو دباؤ میں رکھیں تاکہ چھوٹی چھوٹی مخصوص اور مفادات کی پارٹیاں وقتاً فوقتاً ان وزرائے اعلیٰ کو بلیک میل کرتے رہیں۔ ہمارے پاس ایسی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ سابق وزرائے اعلیٰ کو بلیک میل کیا گیاان میں شہید اکبر بگٹی کی حکومت ، سردار عطاء اللہ مینگل اور اختر مینگل کی حکومتیں شامل ہیں ۔سردار اختر مینگل کو بلیک میل نہ ہونے کی بڑی سزا دی گئی اس کی پارٹی کو توڑا گیا اور اس کے درجن بھر وزراء بمعہ فلیگ کاروں کے مسلم لیگ میں رات کے اندھیرے میں شامل ہوئے جو بلوچستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے ۔بے شرمی کی بات یہ ہے کہ کسی نے بھی اپنی نشست سے استعفیٰ نہیں دیا اوربننے والی مسلم لیگ کی حکومت میں ان کو ان کے پرانے قلم دان دے دئیے گئے۔ سردار اختر مینگل کو مقتدرہ نے ایک مثال بنادیا تھا اور کسی کو بھی یہ جرات نہ ہوتی کہ وہ حکم عدولی کرے اور وزراء خصوصاً مفاد پرست اور کرپٹ وزراء کے احکامات بجا لائے ۔اس لئے ایک وزیر نے کوئٹہ کے ایک مقامی اور خودمختار ادارے جس کا وہ انچارج وزیر تھا 500افراد راتوں رات بھرتی کیے یہ سب کوئٹہ کے رہائشی نہیں تھے اس نے اپنے گاؤں کے جاہل اور ان پڑھ لوگوں کو ملازمتیں دیں اورصرف سیاسی بنیادوں پر دیں اس طرح بی ڈی اے اور دوسرے خودمختار اداروں میں اس قسم کی ہزاروں بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر ہوئیں۔ اب حکومت پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ ان تمام کی ملازمتوں کو مستقل کیاجائے اور عوامی خزانے سے ان کو بھی تنخواہیں دی جائیں جو بلوچستان کے عوام اور ان کے وسائل پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ وزیراعلیٰ صاحب اس دباؤ کی مزاحمت کریں کسی بھی سیاسی ملازم کی ملازمت کو مستقل نہ کریں، ان افراد کوان سابق وزراء کے پاس بھیج دیں کہ ان سب کی تنخواہیں وہ ادا کریں ورنہ گھر چلے جائیں بلکہ ہم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ان تمام سابق وزراء کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں اور ان کا ٹرائل کیاجائے کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور غریب ترین صوبے کے خزانے کو نقصان پہنچایا ۔ دوسری جانب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ صوبہ بھر میں اسی ہزار سے ایک لاکھ تک بھوت ملازمین ہیں اور وہ کوئی ڈیوٹی دئیے بغیر سرکاری خزانے سے تنخواہیں وصول کررہے ہیں ان تمام بھوت ملازمین کا پتہ لگایاجائے، نہ صرف ان کے خلاف فراڈ اور دھوکہ دیہی کے مقدمات بنائے جائیں بلکہ ان سے سابقہ تما م تنخواہیں واپس لیے جائیں تاکہ آئندہ کوئی بھوت ملازم نہ ہو۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ بھلائی کاکام کریں تو غریب صوبے کے بیس ارب روپے بچ سکتے ہیں جس کو اچھی معیاری تعلیم پر خرچ کیاجائے۔ بہر حال سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے جانے والے خودمختار اداروں کے ملازمین کا حکومت بلوچستان پر کوئی حق نہیں بنتا مفاد پرست اور بد نیت عناصر ان کی حمایت بند کردیں ۔یہ مسئلہ صرف سیاسی پشت پناہی نہ ہونے پر اپنے آپ ختم ہوجائے گا ۔