بچے ہمارے ملک کا سرمایا ہیں .آج کے بچے مستقبل کے معمار ہیں .بچوں کو تعلیم دلوانا ان کا حق اور ہمارا فرض ہے پر افسوس تعلیم تو دور کی بات، انکو دو وقت کی روٹی بھی مشکل اور بہت مشقت سے ملتی ہے۔ بچے پھول کی طرح ناز طرح ہوتے ہیں وہ مٹی کی طرح ہوتے ہیں جس طرف چاہیں انکو ڈھال لیں وہ ڈھل جاتے ہیں۔ بچوں سے مشقت لینا قانونی و اخلاقی جرم ہے۔گھروں میں، سڑکوں میں، قالین بنانے میں بچے مزدوری کرتے نظر آتے ہیں آخر انکا مستقبل کیا ہے۔ 2012 ILO ,unicefکی سروے کے مطابق تقریباً 5149 12 ملین پاکستانی 5 سے 17 سال کے بچے child لیبر کر رہے ہیں اور انکی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔گاؤں دیہات میں 60 سے 70 فیصد بچے مزدوری کر رہے ہیں.ورلڈ report کے مطابق 5فیصد بچے دیہاتوں میں ایگریکلچرل لیبر کر رہے ہیں گاؤں دیہاتوں میں child لیبر کی بنیادی وجہ اسکولوں کا نہ ہونا، غربت اور زیادہ آبادی ہے.شہروں میں بچوں سے جبراً مزدوری کا کام لیا جاتا ہے انھیں کارخانوں میں ،گھروں میں، روڈوں میں گیراجوں میں کام کروایا جاتا ہے۔ ایک گھر میں آٹھ دس بچوں کو غریب انسان کہاں سے دو وقت کی روٹی کھلا سکتا ہے پاکستان کی آبادی کا تناسب بڑھ رہا ہے اسی لیے غریب والدین اپنے بچوں کو بچپن سے ہی محنت مزدوری کا کام کرواتے ہیں.پاکستان کے علاوہ افغانستان ،افریقہ ،انڈیا ،بنگلہ دیش، یمن میں چلڈ لیبر کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔چائلڈ لیبر سے نہ صرف انکا معصوم بچپن چھینا جارہا ہے بلکے بچوں کی ذہنی ،جسمانی صحت بھی متاثر ہورہی ہے child لیبر میں پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جب کہ دیگر ممالک میں child لیبر کا تناسب کم ہورہا ہے اور یہ ہم سب کے لیے سوالیہ نشان ہے اس میں نہ صرف بچوں کے والدین بلکہ ہم بھی ملوث ہیں کیونکہ بچے ہمارے گھروں میں بھی کام کر رہے ہیں کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ جب بھی ہم کوئی کام کرنے والا رکھیں تو بچوں کو گھروں میں کام پر رکھنے سے گریز کریں۔جب پڑھے لکھے لوگ ان سے مشقت لیتے ہیں جبکے ہمیں حقوق کا پتا بھی ہوتا ہے تو ہم انکے والدین سے کیا امید رکھیں جو کہ غربت کی چکی میں پس کر مجبور ہوکر بچوں سے مشقت کرواتے ہیں .
( Human right commission of Pakistan ) کے سروے کے مطابق 1990 میں ll ملین بچے مزدوری کر رہے تھے جن کی عمریں 10 سال ہیں .1994 تک 8 سال اور 1996 تک کم ہوتے ہوتے 7 سال تک ہیں۔ ہمارے ملک میں جو مزدور کام کر رہے ہیں انکی تعداد کا ایک چوتھائیْ حصہ بچوں کا ہے .پاکستان کے شہرحیدر آباد جو چوڑیوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے اس میں مزدور بچوں کی عمریں 4 سے 5 سال ہیں اور وہ 2 سے 3 دن میں 12 سیٹ تیار کرتے ہیں ایک سیٹ میں 45 چوڑیاں ہوتی ہیں اور انکی مزدوری صرف 40 روپے ہے .افسوس ہم ایک آزاد ملک میں رہ کر بھی اب تک غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں .معصوم بچوں سے جبراً مشقت لی جا رہی ہے۔ان سے گھروں میں جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے .والدین غربت کی وجہ سے مجبور ہوکر اپنے بچو ں کو گھروں میں کام کرواتے ہیں .ہر والدین کی طرح وہ بھی بچوں کو بہتر مستقبل دینے کی آرزو رکھتے ہیں لیکن وسائل انکا ساتھ نہیں دے پاتے اور وہ اپنے بچوں سے مشقت کا کام کرواتے ہیں۔ہمارے ملک میں غربت،بیروزگاری روز بروز بڑھ رہی ہے۔
ہماری حکومت نے چائلڈ لیبر کو روکنے کے لیے چند لاء بنائے ہیں جن میں ایکٹ 1991 کے تحت the employment of childاو ر bounded labour system Abolition the ایکٹ 1992 بنائے ہیں۔ 2014 دسمبرartment of labour dep US نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں 9 پروڈکٹ بچوں کی مشقت سے بن رہے ہیں .جن میں چوڑیاں, چمڑے کا کام ،اینٹییں بنانا ،قالین بنانا ، کوئلہ مائننگ اور سرجیکل اوزار بنانا۔ NGOs اور بہت سی تنظیمیں چائلڈ لیبر پر کام کر رہی ہیں ان کے پروگرام میں فری اسکولوں ،فری اسپتال وغیرہ ہیں۔ دنیا کے 75 فیصد دنیا کی فٹ بالیں اور سوکر بال پاکستان سے بن کر آتی ہیں۔جن میں زیادہ تر بچے مزدور ہیں جن کی عمریں 5 سے 14 سال تک ہیں۔1997 معاہدہ کے تحت جو کہ ILO,Unicef,save the children اور Sialkot chamber of commererce کے درمیان طے پایا گیا جس کے مطابق بچوں کو فٹ بال مزدوری سے ہٹایا گیا۔ہماری حکومت اور تنظیمیں مل کر کام کر رہی ہیں۔یہ صرف حکومت کی ذمے داری نہیں بلکہ ہم سب کی بھی ہیے کہ ہم بھی اپنا کردار ادا کریں اور اپنے مستقبل کے معماروں کا مستقبل روشن کریں۔ہم خود عمل کریں بچوں سے مشقت نہ لیں اور کوشش کریں کہ ان کی مدد کریں۔کیونکہ ظلم کا ساتھ دینا اور ظلم کو دیکھ کر نظر انداز کرنا بھی ظلم کے برابر ہے۔اپنے آس پاس غریب بچوں کو جہاں تک ممکن ہو تعلیم دیں فری ٹیوشن دیں یہ صدقہ جاریہ بھی ہے اور ملک کی ترقی میں آپکا کردار بھی۔حکومت ،ہم اور تنظیمیں مل کر کوشش کرتی رہیں گی تو ایک دن ہمارے ملک سے بھیchild labourجیسا ناسور ختم ہو جائے گا۔