|

وقتِ اشاعت :   December 18 – 2016

بلوچستان رقبے اور قدرتی وسائل کی فراوانی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو پسماندگی، غربت اور بیروزگاری کے اعتبار سے بھی پاکستان میں سب سے چھوٹا صوبہ ہونے کے ساتھ سرِفہرست ہے۔ماہرین کے مطابق برصغیر میں باقاعدہ آبادی کا آغاز بلوچستان سے ہوا اور یہیں سے ہڑپہ اور موہنجودڑو کی عظیم الشان تہذیب کا آغاز ہوا ۔بلوچستان جس قدر سنگلاخ پہاڑوں اور بے آب و گیاہ میدانوں میں گھرا ہوا ہے، اسی طرح سے اسے ایک عرصے سے علیحدگی پسندانہ شورش اور فرقہ واریت کے شعلوں نے بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے شمال کی طرف تقریباً دس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع سنگلاخ چٹانوں میں 1894 میں تاج برطانیہ کے دور میں لوگوں کو سستی فراہمی زیر زمین پانی کی سطح بلند رکھنے اور آس پاس کی اراضی کو سیراب کرنے کے لیے ہنہ جھیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ہنہ جھیل موسم سرما میں مہاجر پرندوں کی بہترین آماجگاہ رہی سائبیریا سے آنے والے آبی پرندوں جن میں بڑی تعداد میں مرغابیوں کی ہوتی تھی جو موسم سرما میں پہنچتے اور موسم بہار کی آمد تک یہیں رہتے اور افزائش نسل بھی کرتے تھے۔1818 ایکڑ رقبے پر پھیلی اس جھیل میں32کروڑ20لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے اور گہرائی تقریباً 43فٹ ہے بارشوں اور برفباری کا پانی مختلف گزرگاہوں سے ہوتا ہوا اوڑک روڈ پر واقع براستہ سرپل جھیل تک پہنچتا ہے۔مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے کچھ سال یہ جھیل مکمل خشک رہی۔ کوہ زرغون سے برفباری اور بارش سمیت اوڑک کے قدرتی چشموں کے پانی کو جھیل تک لانے کے لیے تاج برطانیہ دور میں سرپل تعمیر کیا گیا تھا اور وہاں لوہے کے پانچ دروازوں اور پانچ سرنگوں کی تعمیر کی گئی تاکہ پانی کے ضیاع کو روکا جاسکے اور پانی جھیل تک پہنچے.جھیل کو بہترین سیاحتی مقام بنانے اور لوگوں کو سستی تفریح اور ماحولیات کی بہتری کے لیے جھیل کا کنٹرول پاک فوج کے حوالے کیا گیا۔اس جھیل میں کشتی رانی کی تربیت دی جاتی ہے اور یہاں کشتی رانی کے کئی مقابلے بھی ہوچکے ہیں۔یہ جھیل درمیان میں بہت گہری ہے۔کئی حادثات بھی اس جگہ ہو چکے ہیں اور کئی لوگ اس جہاں فانی سے چلے گئے ہیں۔ہنہ جھیل کی خوبصورتی اور پر فضا ماحول میں کوئی شک و شبہ نہیں لیکن اس جھیل کے دھانے پر تعمیر کیا جانے والا قلعہ نما دروازہ بھی فن تعمیر اور انجنئیرنگ کا نادر نمونہ ہے۔ ایک چھوٹی سی پگڈنڈی آپ کو اس دیو ہیکل دروزے کی چھت پر لے جاتی ہے۔ جھیل اطراف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے صرف شمال مغرب کی جانب ایک درہ ہے جہاں سے کسی زمانے میں جھیل کا زائد پانی نکلتا رہتا تھا ۔برطانوی دور میں اس درے پر ایک عظیم دروازہ تعمیر کیا گیا جس کی چھت پر مکینکل سسٹم نصب تھا دروازے کی تعمیر جھیل کی تہہ سے پہاڑ کی بلندی تک کی گئی ہے دورازے کی پچھلی جانب پانی کے خشک گزر گاہ کا دور تک نظارہ کیا جاتا ہے اس دروازے کو کھولنے اور بند کرنے کا نظام آج کل ناکارہ ہو چکا ہے اور ہمیشہ بند رہتا ہے۔ اس جگہ کی تعمیر پر مزدورں کے ساتھ انتہا ئی بے رحمانہ سلوک کیا جاتا تھا تعمیر کے آغاز پر برطانوی انجینئر نے مقای مزدوروں سے ادائیگی کا جو معاہدہ کیا اس کے مطابق جو مزدور دورانِ کام نماز ادا کرے گا، اْسے 50 پیسے کم دیہاڑی دی جائے گی اور جو نماز نہیں پڑھے گا اْسے پوری دیہاڑی ملے گی۔ لیکن جب ادائیگی کی گئی تو صورتحال اس کے بر عکس رہی اور نمازپڑھنے والے مزدور کو پوری اور بے نمازی مزدور کو 50 پیسے کم اْجرت ادا کی گئی۔ ‘‘اس جھیل کی تعمیر اس وقت کی چھاؤنی کی پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے حوالے سے ایک سٹوریج ٹینک کے طور پر کی گئی جس میں مقامی افراد اور چھاؤنی کے استعمال کے بعد بچ جانے والے اضافی پانی کو سٹور کیا جاتا تھا۔ کیونکہ برطانوی حکومت نے چھاؤنی کے لئے پینے کے واسطے پانی ہنہ ندی سے براہ راست پائپ لائن کے ذریعے چھاؤنی کو مہیا کیا تھا جبکہ مقامی آبادی ندی میں بہنے والے پانی سے اپنی ضرورت پوری کرتی تھی۔ اس طرح دونوں کے استعمال کے بعد جو پانی بچ جاتا تھا وہ ہنہ جھیل میں ذخیرہ کر لیا جاتا تھا۔جھیل کی قدرتی ہیئت کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہرین ماہی پروری کے مطابق جھیل میں تجارتی بنیادوں پر ماہی پروری کے بھر پور مواقع موجود ہیں اور یہاں پروان چڑھنے والی مچھلیوں کو کسی مصنوعی کھاد کی بھی ضرورت نہیں بلکہ جھیل میں قدرتی طور پر خوراک کا اچھا انتظام موجود ہے۔ لیکن ان تمام چیزوں کا احیاء اسی صورت ممکن ہے کہ جھیل میں پانی تواتر سے آتا رہے اور بخارات کی صورت میں نہ اڑے۔بارشیں کم ہونے کی وجہ سے اور اطراف سے بارشوں، چشموں اور کاریزوں کا جو پانی بہہ کر جھیل کی طرف آتا تھا، ان گزر گاہوں میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کے باعث بارشوں کے موسم میں پورے کا پورا پانی جھیل میں نہیں آتا ہے۔ لاتعداد مقامی اور غیر ملکی سیاح ہنہ جھیل کی قدرتی خوبصورتی اور خوشگوار فضاء کی بنا پر شہر کے ہنگاموں سے دور اس پْر سکون اور پْر فضا مقام پر چند روز قیام کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں ، اگر ان سیاحوں کے لیے یہاں ایک بڑا ہوٹل یا چند اقامتی کاٹیج تعمیر کر دیئے جائیں تو ہنہ جھیل کی دلکشی میں اضافہ ہوگا۔پاکستان کے خوبصورت ترین مقامات میں ایک مقام ہنہ جھیل ہے جہاں پر اکثر لوگ گھومنے کیلئے آتے ہیں اور اپنے غم بھول جاتے ہیں۔