|

وقتِ اشاعت :   April 3 – 2017

کراچی : مردم شماری میں لا پتہ افراد کو مردہ قرار دے دیا گیا ،شہر یو ں میں شدید تشو یش کی لہر دوڑ گئی،کراچی سمیت پو رے ملک سے سیکڑ وں کی تعداد میں افراد لا پتہ ہیں جسکی گمشد گی کی درخواست عدالتوں زیر سما عت ہے، مردم شماری کے دوران کراچی سمیت پورے ملک سے لا پتہ ہو نے والے لواحقین نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ،جب مردم شماری کے غرض سے آ نے والے عملے نے انکے بھا ئی ،بیٹوں اور شو ہر کو مردم شماری میں شامل کر نے سے انکا ر کر دیا ہے،کراچی کے مختلف علا قوں سے ملنے والی اطلا عات کے مطا بق گمشدہ افراد کے اہل خانہ کی جا نب سے اپنے لا پتہ ہونے والے افراد کو مردم شماری میں شا مل کرنے کے لئے زور دیا گیا تو مردم شماری کے عملے نے جواب دیا کہ ادراہ شماریات نے6ماہ سے زیا دہ غا ئب ہو نے والے افراد کو مردہ قرار دیاہے مردم شماری کے عملے کے اس رویہ سے پریشان اور غم زدہ افراد نے اسے عد لیہ کی تو ہین قرار دیا ہے،کیو نکہ لا پتہ ہونے والے افراد عدالت عا لیہ اور عدالت عظمی میں زیر سما عت ہیں جبکہ سند ھ میں چیف سیکر یٹری کی سر پرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے جو گمشدگی اور لاپتہ افرد کی با زیا بی کے لئے کوشش کر رہا ہے۔اس حوالے سے گلستان جوہر کے رہائشی محمد علی نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرا بھائی 27 اگست2013ء سے لا پتہ ہے اور اب تک اس کا کچھ پتا نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں میرے گھر پرمردم شماری کے حوالے سے عملے نے ہم سے ہمارے گھر کے افراد کے بارے میں معلومات حاصل کیں تاہم جب میں نے اپنے چھوٹے بھائی دانش کے بارے میں ان کو معلومات فراہم کیں تو عملے کی جانب سے یہ کہا گیا کہ آپ کابھائی تین سال سے لا پتہ ہے اس لیے ہم اس کا اندراج نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں پتا نہیں کہ وہ حیات ہے یا اس کا انتقال ہو گیا ہم کسی صورت اس کو آپ کا فیملی ممبر شمار نہیں کر سکتے ہمیں صرف6 ماہ سے غائب ہونے والے افراد کے حوالے سے اندراج کرنے کا حکم ہے۔ محمد علی کا کہنا تھا کہ میں نے جب سوال کیا کہ میں اپنے بھائی کے بارے میں کیا سمجھوں کہ وہ وہ زندہ ہے یا مر چکا ہے جس پر عملے نے جواب دیا کہ میں اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں ، مردم شماری میں اس کا نام شامل نہیں کیا جا رہا تو اس کو مردہ سمجھا جائے ۔ اس حوالے سے روز نامہ جسارت نے ادارہ شماریات کے ایک افسر سے معلومات حاصل کیں تو ان کا کہنا تھا کہ یہ تو بہت اہم مسئلہ ہے میں اس کے بارے میں کسی سے معلومات کر کے آپ کوبتا سکوں گا ۔ تاہم 3سال سے لا پتہ افراد کے حوالے سے مردم شماری میں اندراج نہیں کیا جا سکتا ۔ صرف6 ماہ سے غائب یا ملک سے باہر جانے والے افراد کا اندراج ہو سکتا ہے لیکن یہ بہت اہم مسئلہ ہے جس کے بارے میں آپ نے مجھے آگاہ کیا ہے ۔ چند روز میں اس کے بارے میں قانونی حیثیت کیا ہے آپ کو بتا سکوں گا ، لاپتہ افراد کو مردہ ظاہر کرنے کے بجائے ان کا اندراج مردم شماری میں کیا جانا چاہیے، کیس عدالت میں زیر سماعت ہے تو کس طرح لاپتہ افراد کو مردہ شمار کیا جا سکتا ہے، چار سال سے لاپتہ افراد بھی اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں، مردم شماری سے قبل ادارہ شماریات کو لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق قائم کیے گئے حکومتی کمیشن سے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔ ان خیالات کا اظہار حکومت پاکستان کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے میڈ یا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ مردم شماری میں لاپتہ افراد کا نام درج کیا جائے۔ جب لاپتہ افراد سے متعلق کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہے تو کس طرح کوئی لاپتہ افراد کو مردہ شمار کر سکتا ہے، لاپتہ افراد کے حوالے سے کمیشن میں بہت سے افراد جو 4 سال سے لاپتہ تھے اپنے گھروں پر واپس آگئے ہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اگر کوئی لاپتہ ہو گیا ہے تو وہ واپس نہیں آئے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مردم شماری میں لاپتہ افراد کا اندارج نہیں کیا جا رہا ہے تو یہ غلط اقدام ہے ادارہ شماریات کو اپنے عملے کے ذریعے فوری طورپر پورے ملک سے لاپتہ افراد کا اندراج کرنا چاہیے تا کہ مردم شماری کے ذریعے معلوم ہو سکے کہ ملک بھر سے اب تک کتنے افراد لاپتہ ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے لواحقین خوف اور مالی پریشانیوں کی وجہ سے اپنے پیاروں کے لاپتہ کیے جانے پر نہ توعدالت سے رجوع کرتے ہیں اور نہ ہی کمیشن کو اطلاع دیتے ہیں۔ اگر مردم شماری کے ذریعے لاپتہ افراد کے بارے میں اندراج ہو گا تو ہمیں بھی پورے پاکستان میں لاپتہ افراد کے بارے میں مزید بہتر معلومات ہو سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ مردم شماری سے قبل ہم سے ادارہ شماریات نے نہ تو کوئی رابطہ کیا اور نہ ہی لاپتہ افراد کے حوالے سے معلومات حاصل کی گئی ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ کراچی میں لاپتہ افراد کے لواحقین میں سے کوئی بھی فرد مردم شماری میں اپنے پیاروں کے نام درج نہ کرنے کے حوالے سے اپنی درخواست لا پتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم سندھ میں کمیشن کے سربراہ اور سندھ ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ غوث محمد کو دے سکتے ہیں، اس درخواست کو مدنظر رکھتے ہوئے کمیشن ادارہ شماریات یا دیگر متعلقہ اداروں کو نوٹس جاری کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرمین آمنہ مسعود جنجوعہ نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے لیے مردم شماری میں ہر قیمت پر اندارج ہونا چاہیے اگر لاپتہ افراد کے لیے مردم شماری میں اندراج نہیں کیا جا رہا ہے تو اس کے لیے ہم پورے ملک میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ مل کر بھرپور احتجاج کریں گے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی کا پیارا لاپتہ ہو اور اسے مردہ تصور کیا جائے ہم کسی صورت اس کو برداشت نہیں کریں گے اور جتنے بھی لاپتہ افراد ہیں ان کے ساتھ مل کر پہلے اسلام آباد میں مردم شماری کے خلاف احتجاج کریں گے اس کے بعد ملک کے دیگر حصوں میں احتجاج کیا جائے گا اور ادارہ شماریات کو لاپتہ افراد کو ہر صورت میں اندراج کرنا ہو گا۔