بلوچستان میں گندم کی خریداری ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے پہلے وفاقی حکومت ایک ادارے کی توسط سے بلوچستان میں گندم کی بڑے پیمانے پر خریداری کرتی تھی لیکن اب سالوں سے وفاقی حکومت نے بلوچستان سے خریداری بند کردی ہے ، شاید ہمیشہ کے لئے ۔ اگر یہ بات درست ہے تو وفاقی حکومت کوفود سیکورٹی کی وزارت فوری طور پر ختم کردینی چائیے ، یہ وزارت قومی خزانہ پر بوجھ ہے ۔ 18ویں ترمیم کے بعد زراعت مکمل طورپر صوبوں کے پاس چلا گیا ہے تو اس کے بعد فوڈ سیکورٹی کے نام پر محکمہ زراعت سمجھ سے بالا تر ہے اوراس کے ساتھ یہ بھی کہ فوڈ سیکورٹی کا کوئی کردار ابھی تک صوبوں کے سامنے نہیںآیا،ا لبتہ اس وزارت کے وزیر کوئٹہ آئے تو فوڈ سیکورٹی سے زیادہ انہوں نے گہرے سمندر میں مچھلی کے شکار کا دھندا شروع کرنے کی بات کی ۔ صوبائی وزیراعلیٰ نواب زہری نے ان کی بات سنی اور معاملے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نظر انداز کردیا کیونکہ وزیراعلیٰ کو یہ بخوبی معلوم تھا کہ بلوچستان کے ماہی گیروں کو بڑے بڑے ٹرالروں ‘ خصوصی سندھ سے آنے والے ٹرالروں سے شکایات ہیں اس لیے وزیراعلیٰ نے عقلمندی کا ثبوت دیا اور معاملے کو سرد خانے کے سپرد کردیا ۔ فوڈ سیکورٹی وزارت کا یہ کام ہونا چائیے کہ وہ ملک کے دوردرا زعلاقوں میں گندم کو موسمیاتی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے جدید گودام تعمیر کرے جو ورلڈ فوڈ پروگرام نے کوئٹہ میں تعمیر کیے ہیں۔ وزارت ملک بھر سے تمام گندم خریدے اور ان گوداموں میں رکھے تاکہ عوام کو یہ تسلی ہو کہ سالوں کے لئے ان کے پاس گندم موجود ہے ۔ اسی طرح صوبائی حکومت بھی گندم خریدے تاکہ گندم اور آٹے کی قلت صوبے کے کسی بھی حصے میں نہ ہو بلکہ دیگر صوبے اور وفاق گندم کی قلت کی وجہ سے صوبائی حکومت کو دباؤ میں نہ رکھیں اس لیے حکومت پر فرض ہے کہ وہ صوبے کے اندر گندم کی مکمل پیداوار کو خرید لے خصوصاً ان چھوٹے کاشتکاروں کو ترجیحاً فائدہ پہنچائے جو اپنی پیداوارآڑتھی سیٹھ کے ہاتھوں کوڑیوں کے دام فروخت کرتے ہیں۔ زمینداروں کے مطالبات جائز ہیں اور وزیراعلیٰ اس معاملے پر خود توجہ دیں اور جلد ہی اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا جائے کہ بلوچستان میں پیدا ہونے والی گندم کی پوری فصل ہر شخص سے خریدی جائے گی اور کسانوں کو آڑتھی کے ہاتھوں استحصال کا شکار نہ ہونے دینگے۔