نوابزادہ گزین مری نے اپنے اس فیصلے کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے کہ وہ وطن واپس آرہے ہیں اور اپنی خود ساختہ جلا وطنی ختم کررہے ہیں جو گزشتہ 18سالوں پر محیط ہے ۔ وہ دبئی دورے پر گئے تھے اور اس کے بعد وہ وطن واپس نہیں آئے۔
متحدہ عرب امارات نے ان کو پناہ دی تھی، ان کے ساتھ بڑی تعداد میں بلوچ تارکین وطن شامل تھے ۔ کئی سال قبل حکومت پاکستان نے گزین مری کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا تو متحدہ عرب امارات نے ان کو گھر میں نظر بند کردیا تھا اور پاکستان کی حکومت نے جو الزامات لگائے تھے ان کی تحقیقات کی تھی۔
گزین مری کے خلاف وہ تمام الزامات غلط ثابت ہوئے اور متحدہ عرب امارات نے ان کو حکومت پاکستان کے حوالے نہیں کیا۔ نواب چنگیز مری کے اپنے والد سے سیاسی اختلافات تھے اس لئے وہ سیاسی طورپر الگ ہوگئے تھے اور انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی مگر گزین مری نے اپنے والد سے اختلافات کا اظہار کبھی نہیں کیا تھا نہ ہی انہوں نے اپنے والد کی حکم عدولی کی تھی مگر پاکستانی حکمران یہ توقع رکھتے تھے کہ گزین مری بھی کھل کر مسلم لیگ میں آئیں اور والد کی سیاست کی کھل کر مخالفت کریں لیکن یہ گزین مری کو منظور نہیں تھا کہ وہ نواب چنگیز مری کے نقش قدم پر چلیں اس لیے وہ خاموش رہے سیاست سے دور رہے اور اپنے دوسرے بھائیوں حیر بیار مری اور زامران مری سے دوری اختیار کی ۔
سیاست میں نواب ذوالفقار علی مگسی کے زیادہ قریب رہے ۔ 1990ء کی دہائی میں جب نواب ذوالفقار علی مگسی بلوچستان کے و زیر اعلیٰ تھے توگزین مری صوبے کے وزیر داخلہ بنے اور وزیراعلیٰ کے دست راست تھے اس لیے یہ گمان ہورہاہے کہ وہ وطن واپس آ کر اسی سیاست پر عمل پیرا رہیں گے اور مقتدر قوتوں کے قریب تر رہیں گے ۔ بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ وہ پی پی پی کی طرف جائیں گے ۔ اس کی و جہ گزین مری کی سابق صدر آصف علی زرداری سے ذاتی دوستی ہے اس لیے یہ ممکنات میں شامل ہے کہ وہ پی پی پی میں شامل ہوجائیں ۔
لیکن غالب خیال یہی ہے کہ وہ نواب مگسی کے ساتھ رہیں گے اور ان کی مشاورت سے سیاست کریں گے ۔ان کے والد کا انتقال ہوچکا ہے ، نواب خیر بخش مری کی سیاست کے وارث حیر بیار مری اور زامران مری ہیں ان سے گزین مری نے اپنے اختلافات کا کھل کر اظہار کیا ہے لہذا وہ جنگ و جدل کی سیاست نہیں کریں گے ۔
مقتدرہ کو اس بات کی خوشی ہوگی کہ حیر بیار مری اور زامران مری کے خلاف مری اتحاد زیادہ موثر اور مضبوط ہوجائے اس لیے مقتدرہ ان کی وطن واپسی کو خوش آمدید کہے گی بلکہ ان کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کرے گی کہ وہ ’’ قومی دھارے ‘‘ کی سیاست کریں اور اپنی خودساختہ جلا وطنی کی زندگی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کریں ۔ گزین مری کے وطن واپس آنے سے نواب مگسی کا کیمپ زیادہ مضبوط اور انتخابات میں زیادہ موثر ہوسکتا ہے تاہم یہ اس بات پر منحصر ہے کہ گزین مری سیاست میں کتنا بڑا اور اہم کردار ادا کریں گے ۔
لیکن یہ امید بعض حلقوں میں زیادہ ہے کہ ان کو آئندہ کی سیاست میں ایک اہم کردار مل سکتا ہے بلکہ وہ ایک انعام بھی ہوسکتا ہے جو وہ اپنی خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے وطن واپس آرہے ہیں اور زیادہ غالب اکثریت والے گروہ میں شامل ہورہے ہیں جو بلوچستان پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہاہے ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ واپس آ کر اپنے والد اور بھائی بالاچ مرحوم کی سیاست کریں ۔
انتخابی سیاست یا پارلیمانی سیاست میں نواب خیر بخش مری کی سیاست کا کوئی کردار نہیں ہے ۔ البتہ نواب چنگیز مری ایک انتہائی تنہائی پسند انسان ہیں، گزین مری توقع کے مطابق ان سے اور ان کی سیاست یا مری قبائل کی سیاست سے دور رہیں گے۔ مگر بہ حیثیت سردار مری ‘ وہ نواب چنگیز خان کی مخالفت نہیں کریں گے ۔یہ تمام باتیں اس وقت کھل کر سامنے آئیں گی جب گزین مری وطن واپس آئیں گے اور پالیسی کا اعلان کریں گے۔