|

وقتِ اشاعت :   October 26 – 2013

پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں ڈرون حملوں کے مسئلہ کو ایک بار پھر اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کے لئے خطرہ اور دہشت گردی میں اضافے کا سبب ہیں ۔ اقوام متحدہ پاکستان پر ہونے والے غیر قانونی ڈرون حملوں کا نوٹس لے اور ان کو روکنے کے لئے ضروری اقدامات اٹھائے ۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے خصوصی نمائندے ضمیر اکرم نے خصوصی کمیٹی کو بتایا کہ جنگی زون سے باہر کسی بھی ملک کے خلاف ڈرون حملوں کا استعمال بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حملوں میں بے گناہ افراد کے جاں بحق ہونے کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے ماورائے عدالت قتل یا سزائے موت کے خصوصی نمائندے کرسٹوف پاٹنز نے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ ڈرون حملے عالمی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ ہیں جبکہ یہ حملے دیگر ممالک کو ڈرون طیاروں کے حصول کی جانب راغب کررہے ہیں ۔ ڈرون حملوں کا استعمال کرنے والے ممالک ان کی شفافیت اور طریقہ کار کی وضاحت کریں ۔2004ء سے اب تک 330ڈرون حملوں میں 2200افراد مارے جا چکے ہیں اورہر ڈرون حملوں کے بعد اس وقت کی حکومت نے برابر احتجاج بھی کرنا اپنا فرض سمجھا ۔ نون لیگ جب حکومت میں نہیں تھی تو ان ڈرون حملوں پر وہ پیپلزپارٹی کی سرزنش کرکے کہتی تھی کہ امریکی ڈرون حملوں کو حکومت کی خاموش حمایت حاصل ہے ۔ مگر جب سے ن لیگ برسراقتدار آئی ہے ڈرون حملوں کا سلسلہ نہیں رکا ۔ اسی تواتر سے ڈرون طیارے خراماں خراماں آکر اپنا ہدف پورا کرکے چل دیتے ہیں ۔ اس کے بعد دفتر خارجہ سے ایک مذمتی بیان جاری ہوجاتا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان آکر ڈرون حملوں کے بارے میں اپنا مؤقف واضح کردیا تھا اب اس کے بعد بھی اگر کوئی امریکا سے یہ توقع رکھے کہ امریکا ہمارے کہنے پر ڈرون حملے بند کرے گا تو یہ فضول سوچ کے زمرے میں ہی آئے گا۔ جب امریکی وزیر خارجہ سے کہا گیا تھا کہ پاکستان کے اندرون ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کے خلاف ہیں تو انہوں نے اس کے جواب میں بڑے ہی شوخ انداز سے کہا تھا کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے اڈوں کا قیام اور ان اڈوں کے ذریعے بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کے خلاف نہیں ۔ ان کا کہناتھا کہ ہم بھی انہی لوگوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں جو پاکستان کی اور عالمی سلامتی کے خلاف کام کرتے ہیں ۔روس کے خلاف جہاد کے نام پر امریکا سے ڈالر لیتے ہوئے ہم نے دنیا جہاں کے جہادیوں کو اکٹھا کرکے انہیں محفوظ ٹھکانے فراہم کیے اس وقت یہ کسی نے بھی نہیں سوچا کہ جن کو آج ہم جنگ کے لئے ذہنی طورپر تیار کررہے ہیں کیا کل کو جنگ ختم ہونے کے بعد یہ لوگ بغیر جنگ کے سکون کی زندگی گزار سکیں گے یا نہیں ۔ مدارس اور مساجد کے حجروں سے نکل نکل کر اسلحہ کی تربیت لینے والے اور مار دھاڑ پر گزر بسر کرنے والے کیسے پھر حجرہ نشین بن جائیں گے۔ کلاشنکوف کو کندھوں کی زینت بنا کر چلنے والے ہاتھ پھر سے تسبیح کیسے پکڑ پائیں گے۔ہماری حکومت کو چائیے کہ امریکا سے ڈرون حملوں کی بندش کے مطالبے سے قبل جہادی گروپس اور ان کی سرگرمیوں کے خاتمے کا تاثر دے ۔ پہلے اپنے علاقوں میں موجود ان دہشت گردوں کی کمین گاہوں کا خاتمہ کرے پھر امیرکا سے ڈرون حملوں کی بندش کا مطالبہ کرے ۔ دنیا بھر میں پاکستان کا دہشت گردی کے لحاظ سے ایک تاثر بن چکا ہے ۔ اس تاثر کے زائل کرنے میں نہ صرف وقت لگے گا بلکہ حکومتی سطح پر موثر اقدامات بھی اٹھانا ہونگے۔ جب بلا امتیاز رنگ ونسل ‘ مذہب و عقیدہ لوگوں کی عبادت گاہوں میں خودکش حملوں کے واقعات رک جائیں گے تب امریکا ڈرون حملے روک پائے گا ۔ اس سے پہلے ڈرون حملوں پر ہم جتنی بھی آواز بلند کرلیں کون سنے گا۔