|

وقتِ اشاعت :   October 13 – 2017

محکوم اور مظلوم قوموں کی قومی تحریکوں میں ایسے افراد کی قربانیوں اور جدوجہد کو صدیوں تک فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے جو ہمہ وقت اپنے نظریاتی سوچ کی وجہ سے قومی تحریکوں میں فعال کردار ادا کرتے ہیں وہ تمام تر اذیتوں مشکلات تکالیف مسائل کا خندہ پیشانی سے وقت و حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے متعین کردہ راستے سیاست نظریے سے ہٹنے اور سوچ میں تچپلی لانے اور اصولوں پر سودہ بازی کرنے کا تصور تک نہیں کرتے ۔

دنیا کی کوئی طاقت ان کے پر عزم خیالات وافکار نظریات اور سیاست کے راستے میں روکاٹ پیدا نہیں کرسکتی بلوچستان کی قومی تحریک شہداء کے قربانیوں سے بری پڑی ہیں۔

جنہوں نے ہمیشہ ہر مشکل اور سخت وقتوں میں اپنے مادر وطن کی مقدس مٹی کی حفاظت قومی تشخص بقاء سلامتی تہذیب و تمدن قومی ننگ و ناموس اور مثبت روایات کی بحالی ساحل وسائل پر اپنے دست رست مکمل حق احاکمیت واحق و اختیارکے حصول کیلئے اپنے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے قومی تحریکات کیلئے ہمیشہ امر ہوگئے ۔

جنہوں نے قومی کاز اور اپنے آنے والے نسلوں کی مستقبل کیلئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور تاریخ میں نام پیدا کیا ان رہنماؤں میں سے ایک میر نورالدین مینگل ہے جنہیں 13اکتوبر 2010کو صبح بارہ بجے قلات میں نامعلوم افراد نے گھر کے سامنے فائرنگ کرکے شہید کیا وہ بی این پی کے مرکزی کمیٹی کے رکن اورایک معزز سیاسی قبائلی اور اعلیٰ تعلیمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔

سیاسی تعلیمی اور قبائلی حوالے سے ان کے علاقے میں قومی خدمات ناقابل فراموش ہیں میر نور الدین خان مینگل 1952 ؁کو بلوچستان کے تاریخی شہر قلات میں پیدا ہوئے وہ میر لعل بخش مینگل کے فرزند تھے۔


انہوں نے ابتدائی تعلیم قلات سے حاصل کی میٹرک نوشکی سے ایف ایس سی سائنس کالج کوئٹہ سے اور 1970 ؁کو لاہور سے مائننگ میں انجینئرنگ کی اپنے سیاسی جدوجہد کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن (بی ایس او ) کی پلیٹ فارم سے کیا بی ایس او کے مرکزی وائس چیئرمین کے عہدے پر فائز رہے طالب علمی کے دوران پنجاب میں بی ایس او کے سولہ یونٹوں کو نہایت ہی فعال اور متحرک کرایا۔

تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد میرغوث بزنجو مرحوم کی قیادت میں پاکستان نیشنل پارٹی(پی این پی )میں شمولیت اختیار کیونکہ نیپ پر پابندی عائد ہوچکی تھی محکوم قوموں کو اپنے قومی سیاسی جمہوری اور آئینی حقوق کیلئے جدوجہد کرنے کا کوئی اور پلیٹ فارم موجود نہیں تھی۔

پی این پی کے مرکزی نائب صدر اور مرکزی کمیٹی کے عہدے پر فائز رہے پہلی مرتبہ 1988 ؁کو پی این پی کے پلیٹ فارم سے قلات کے صوبائی نشست کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور بعد میں (بی این وائی ایم)کے امیدوار پرنس آغا موسیٰ جان بلوچ کے حق میں الیکشن سے دستبردار ہوگئے 1990 ؁کے الیکشن میں پی این پی کی طرف سے قلات کے صوبائی حلقے سے الیکشن میں حصہ لیا۔

مگر کامیابی حاصل نہیں کی1996 ؁ء کو بی این ایم اور پی این پی کے انضمام میں شہید میر نور الدین مینگل نے کلیدی کردار ادا کیا جب انضمام ہوا تو میر نور الدین مینگل مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر نامزد ہوئے اور وہ آخر دم تک بی این پی کے مرکزی کمیٹی کے عہدے پر فائز رہے شہید میر نور الدین خان مینگل کا شمار پارٹی کے تھنک ٹینک میں سے تھا۔

وہ بی این پی اور بلوچ قومی تحریک کا ایک اہم فگر تھے بے حد سلجھے ہوئے خوبصورت شخصیت کے مالک انسان تھے ملکی اور بین الاقوامی سیاسی معاشی معاشرتی اور آنے والے تبدیلیوں سے نمٹنے پر مکمل عبور رکھتے تھے جب بھی پارٹی کی مرکزی کمیٹی (سی سی )کا اجلاس یا کوئی اہم میٹنگ ہوتا تو شہید میر نور الدین خان مینگل اپنے خدائے داد صلاحیتوں کی وجہ سے گھنٹوں گھنٹوں تک زیر بحث ایجنڈوں پر تفصیل اور دلائل کے ساتھ سیر حاصل گفتگوکرتے ہوئے ۔

دوستوں کی توجہ کا مرکوز ہوتے جب سابق آمر پرویز مشرف کے دور حکومت میں بی این پی نے سیاسی تحریک چلانے کیلئے بلوچستان میں پانچویں آپریشن کے خلاف شہید وطن نواب اکبر خان بگٹی سمیت ہزاروں بلوچ فرزندوں کے شہادتوں سیاسی کارکنوں کے ٹارگٹ کلنگ بلوچ فرزندوں کو لاپتہ کرنے ماورائے آئین و عدالتی قتل و گرفتاریوں کے خلاف 2006ء کو یکم نومبر سے 31دسمبر تک گوادر سے کوئٹہ تک تاریخی لانگ مارچ کا اعلان کیا۔

تو آمر پرویز کے (رجیم)بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر بلوچ وطن پر بلوچی راج انقلاب زندہ باد کے سیاسی تحریک کا سامنا نہ کرنے کی وجہ سے بی این پی کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کردیا صوبے بھر میں بی این پی کے مرکزی قائد سردار اختر جان مینگل سمیت پارٹی کے مرکزی کابینہ مرکزی کمیٹی کے اراکین ضلعی تحصیل وارڈ عہدیداروں اور پارٹی کے سرگرم دوستوں کو گرفتار کرکے پابند سلاسل کردیا۔

اور نیپ کے طرز پر ایک بار پھر بی این پی کو عملاً سیاسی جمہوری سرگرمیوں پر پابندی لگانے کا ایک طرح کا فیصلہ کیا گیا تھا پارٹی کے عہدیداروں کو گرفتارکرکے کراچی گوادر ژوب مچھ لورالائی گڈانی اور صوبے کے دیگر جیلوں میں شفٹ کیا گیا ایسا محسوس ہورہا تھا کہ بااختیار قوتوں نے نیپ کے بعد ایک بار پھر بی این پی کو سیاسی اور جمہوری جدوجہد سے باہر کرنے کا مشن بنا لیا۔

بلوچستان بھر میں ایک بار پھر پارٹی کے نہتے سیاسی اور نظریاتی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ گھروں پر چھاپوں کا نہ روکنے والا سلسلہ شدو مد کے ساتھ جاری تھا اور اس دوران پارٹی کے کارکن ان جاری ناروا پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیلئے صوبے بھرکے ضلعی ہیڈکوارٹر کے پریس کلبوں کے سامنے مظاہرے کیلئے جمع ہونا شروع ہوتے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے اور فورسز پارٹی کارکنوں کو محاصرے میں لیکر خوف وہراس اور تشدد سے باز نہیں آتے۔

تاکہ ظلم و ستم خوف وہراس کے ذریعے سے بلوچ قومی تحریک س وابستہ بی این پی کے سیاسی و نظریاتی سوچ سے لیس کارکنوں کو قومی تحریک کی جدوجہد سے دستبردار کرایا جاسکے اس دوران پارٹی کے چند دوست جو گرفتاریوں سے بچے ہوئے تھے ۔

انہوں نے میر نور الدین مینگل کو پارٹی کا قائمقام سربراہ نامزد کیا شہید میر نور الدین مینگل نے پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے خوف و ہراس کے ماحول کو ختم کرنے۔ اور سیاسی جمود کو تھوڑ نے کیلئے سیاسی میدان میں سرگرمیوں میں تیزی لائی اور اس دوران وہ 3جنوری 2007 ؁ء کو جب بزرگ بلوچ قوم دوست رہبر سردار عطاء اللہ خان مینگل سے قلات سے وڈھ جارہے ہیں تھے تو فورسز نے میر نور الدین مینگل اور ان کے ساتھیوں کو محاصرے میں لیکر خضدار کے مقام پر گرفتار کرکے 3روز تک خضدار کے سٹی تھانے میں رکھا اور بعد میں کوئٹہ کے بدنام زمانہ کرائم برانچ تھانہ شفٹ کرکے طرح طرح کی اذیتیں دی۔

تاکہ وہ بی این پی کو خیر باد کہہ دے یاسیاسی جدوجہد سے کنارہ کشی اختیار کریں مگر اذیتیں اور شدید سردی کے باوجود ریاستی اذیتوں کا جوان مردی سے مقابلہ کیا تمام تر ذہنی جسمانی صعبوتوں کے پروا کئے بغیر قوم اور وطن کی مہر وفا اور وابستگی جدوجہد کا خندہ پیشانی ثابت قدمی اور مستقبل مزاجی چلتن اور مہر داد پہاڑ جیسے پر عزم انسان شہید میر نورالدین مینگل کو آمر قوتیں بلوچ قومی تحریک اور بی این پی سے جدا کرنے بکنے اور خاموش کرانے کی اپنے عزائم میں مکمل طور پر ناکام رہے۔

تو شہید میر نور الدین خان مینگل کو انگریز استمار کے بدنام زمانہ سولہ اور تھری ایم پی او ایکٹ کے تحت غیر سیاسی اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے ذریعے سے پابند سلاسل کرکے خضدار جیل شفٹ کیا جوکہ وہاں پہلے ہی سے بی این پی خضدار سوراب قلات گدرپارٹی کے کثیر تعداد رہنماء اور کارکن مقید تھے اسیری کے دوران شہید میر نور الدین خان مینگل نے اپنے مدبرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خضدار ڈسٹرکٹ جیل کو ایک سیاسی تربیتی ادارے میں تبدیل کرکے۔

پارٹی کے کارکنوں کو معروضی حالات بلوچ قوم اور بلوچستان کو درپیش سیاسی صورتحال پر سیاسی لیکچر دینے کا سلسلہ شروع کیا میر نور الدین مینگل کو دور طالب علمی سے اپنے وطن قومی حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے پر گہری لگن اور شوق تھا میر نور الدین مینگل کو ایک ایسے وقت میں شہید کیا گیا جب پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل حبیب جالب بلوچ کی شہادت کو ابھی تک تین مہینے بھی نہیں گزرے تھے۔

بلوچستان کے عوام اور پارٹی کارکن اپنے عظیم سیاسی رہنماء کی جدائی کے غم میں نڈھال اور پارٹی سوگ منانے میں مصروف عمل تھے کہ ایک بار پھر پارٹی کی سرکردہ رہنماء میر نور الدین مینگل کو شہید کیا گیا تاریخ گواہ ہے قومیں قتل و غارت گری سے ہرگز ختم نہیں ہوتیں بلکہ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی قومی تحریک کیلئے جدوجہد کی پاداش میں شہادتوں اذیتوں کا سامنا کرنے تکالیف کی رد عمل سے قومی تحریکوں کو تقویت ملے گی۔

شہید میر نور الدین مینگل جیسے نڈر بلوچ فرزند قومی کاز کیلئے صدیوں میں پیدا نہیں ہونگے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ گذشتہ 19سالوں سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بی این پی کے کارکنوں کو سیاسی اور جمہوری قومی تحریک کی جدوجہد کے راستے ہٹانے کیلئے قتل و غارت گری کا نشانہ بنارہے ہیں۔

کیونکہ بی این پی کے رہبر عظیم بلوچ رہنماء سردار عطاء اللہ خان مینگل گذشتہ کئی عشروں سے بلوچستان کی قومی مسائل جن میں گوادرمنصوبہ سی پیک ساحل وسائل پر بلوچوں کی حق حاکمیت کی حصول افغان مہاجرین کی انخلاء مردم شماری جاری آپریشن، لاپتہ بلوچ فرزندوں کی بازیابی،مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی،سیاسی کارکنوں کی قتل و غارت گری ، ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں، سیندھک ریکوڈک دودر، چمالنگ گڈانی پاور پروجیکٹس ، اوچ پاور پروجیکٹ ، سوئی سدرن گیس ،چھاونیوں اور دیگر امور پر جو سیاسی اور جمہوری و اصولی موقف اپنایا ہوا ہے۔

اسی کے نتیجے میں آج پارٹی کو دیوار سے لگانے اور پارٹی کی عوامی تائید و حمایت حق رائے دہی کو بلا جواز تسلیم نہیں کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں بلوچستان کا جو مسئلہ وہ سیاسی ہے اور بحران کا شکار ہے اور بااختیار قوتوں کی فہرست میں اس لئے بی این پی گڈ بکس میں شامل نہیں ہے جو باآختیار قوتوں سے اصولوں پر سودہ بازی کرنے کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے ہیں ۔

اور 2013 ؁ء کے عام انتخابات میں بی این پی کی عوامی مینڈیٹ پر شب خون مارا گیا پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل کی وڈھ کی آبائی نشست لیڈ جوکہ ہزاروں ووٹروں پر مشتمل تھی 15دن تک روکا گیا اور صوبے کے دیگر علاقوں میں پارٹی کے کامیاب امیدواروں کو ناکامی میں تبدیل کیا گیا۔

اوراقتدار ایسے لوگوں اور پارٹیوں کے حوالے کی گئی جنہوں نے کرپشن کا بازار گرم کررکھاہوا ہے بلوچستان کے قیمتی اثاثوں ساحل وسائل کو ریوڑیوں کی قیمتوں میں فروخت کیا گیا میرٹ انصاف قانون تعلیم صحت و بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات سے بلوچستانی عوام آج بھی محروم ہے جوکہ ناکام طرز حکمرانی کی واضح ثبوت ہے۔

اگر بی این پی کا مینڈیٹ تسلیم کیا جاتا تو آج بلوچستان کے حالات ایسے نہیں ہوتے ۔شہید گل زمین حبیب جالب بلوچ، شہید میر نور الدین مینگل ، شہیدمیر اسلم جان گچگی،شہید نوابزادہ ریاض احمد زہری،شہید آغا ورنا نوروز بلوچ،شہید سلام ایڈووکیٹ، شہید میر جمعہ خان رئیسانی ، شہید علی اکبر موسیانی ، شہید نصیر جان لانگو، شہید ملک نوید دہوار،شہید اسماء سلام،شہید نواب الدین نیچاری ،شہید حاجی لیاقت مینگل ، شہید ملااحمد یوسف بلوچ،

شہید زائد بلوچ، شہید حاجی عطاء محمد زئی ،شہید مراد جان گچگی ،شہید زبیر جان گچکی ،شہید خان محمد غلامانی ،شہید ڈاکٹر صالح بلوچ، شہید شہناز بلوچ،شہید علی اکبر موسیانی ، شہید ناصر جان بلوچ،شہید امتیاز حسین بلوچ،شہید ظریف دہوار، شہید سمیر جان بلوچ،شہید واجہ رحیم بلوچ ، شہید واجہ عید محمد،شہید عبدالعزیز گمشادزئی،شہید عبدالناصر ،شہید خان جان شائی زئی،شہید ماسٹر عبدالطیف شاہوانی،شہید سعید احمد بارانزئی ،شہید عبدالحئی محمدحسنی، 

شہید ثناء اللہ مردوئی،شہید اللہ بخش مردوئی ،شہید وحید بلوچ،شہید سلمان،شہید حافظ عبدالقادر مینگل،شہید عبید اللہ گرزگی،شہید صحافی عبدالحق بلوچ ،شہید جاوید احمد بارانزئی،شہید محمد گل محمد زئی،شہید حاجی ہدایت اللہ لہڑی،شہید محمدحسن،شہید فتح خاتون،رئیس عبدالقدوس مینگل ،شہید رضامحمد محمدزئی،شہید عبدالکریم مینگل،شہید میر عبدالرحمان دینازئی ،شہید بلال ،شہید آصف بلوچ ،علی احمد لانگو،سے لیکر اب تک پارٹی کے 95کے قریب دوستوں کو شہید کیا گیا ۔

بہت سے پارٹی کے کارکن لاپتہ ہیں پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کے گھر وڈھ پر راکٹ حملہ کرایا گیا پارٹی نے شہید نواب اکبر خان بگٹی کے خلاف احتجاجاً اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر بلوچستان کے سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ دنیا کے توجہ مبذول کرانے میں کامیاب رہے ۔

بی این پی نے ہمیشہ بلوچستان میں ہونے والے ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں اور سیاسی کارکنوں کو غائب کرنے سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ چادر و چار دیواری کی پامالی سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت بلوچستان میں بلوچ عوام کے مرضی و منشاء کوشامل کئے ہوئے۔

بغیر ایسے نام نہاد منصوبوں کی حمایت نہیں کی جوکہ ہماری تہذیب و تمدن تشخص بقاء سلامتی کے خاتمے کا سبب بنے گے بی این پی نے سیاسی جمہوری انداز میں بلوچستان اور بلوچ قوم کے قومی اجتماعی معاشی اور معاشرتی سیاسی حقوق کے استحصال کے خلاف ہمیشہ قربانیاں دی اور ہر جگہ پر سیاسی جلسے جلسوں احتجاجی مظاہروں کے ذریعے یہاں پر ہونے والے ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے ۔

اہلیان بلوچستان ساتھ ہونے والے زیادتیوں پر کبھی بھی خاموشی اختیار نہیں کی ۔پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل کا سپریم کورٹ میں چھ نکات کے ساتھ پیش ہونا دراصل بلوچ خطے کی جیو پولیٹیکل سیاسی معاشی اہمیت یہاں پر بے پنا ہ قدرتی دولت پر بالادست قوتوں کی نظریں لگی ہیں۔

یہاں کے دائمی وسائل پر قبضہ جمانے کی منصوبوں کی راہ میں بلوچ نیشنلزم سیاسی طور پر دفاع کرنے والی جماعت بی این پی کو ایک بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں کیونکہ جڑیں عوام میں مضبوط ہیں اور پارٹی نے بہتر انداز میں بلوچ کے استحصال سیاسی معاشی معاشرتی محکومیت اور پسماندگی کو ملکی سطح پر متحرف کرنے میں سرگرم عمل رہے ہیں یہی وجہ ہے۔

کہ پارٹی کی سرکردہ رہنماؤں شہید میر نورالدین خان مینگل جیسے قدر آور شخصیت کے سینوں کو گولیوں سے چلنی کیا جاتا ہے اور بی این پی جیسے سیاسی قومی جمہوری جماعت کو 2013 ؁ء کے الیکشن میں اس لے ہرایا جاتا ہے کہ بی این پی نے باآختیار قوتوں سے بلوچ قومی سوال پر کمپرومائز کرنے سے انکار کیا اور ایسے اقتدار کو اہمیت نہیں دی جس سے بلوچ عوام کی پسماندگی اور ناانصافیوں کا خاتمہ نہ ہوسکے کیونکہ پارٹی کی جدوجہد سیاست کا محور یہاں کے عوام کی خدمت اور بلوچستانی عوام کے قومی مجموعی اجتماعات مفادات اور جغرافیائی کی حفاظت کرنا ہے۔

شہید میر نور الدین مینگل جیسے عظیم ہستی کو شہید کرکے جسمانی طور پر بی این پی اور بلوچ قوم کو کمزور کرنے کی ضرور کوشش کی ہو یقیناًوہ ایک بہادر انسان تھے ان کی شہادت پر اہلیان بلوچستان اور بی این پی کے کارکنوں کو فخر ہے ۔

کہ انہوں نے اب قومی تحریک کیلئے اپنے جان کی قربانی دیکر منزل کو قریب کیا جنہوں نے تمام تر مراعات مفادات وطن قوم دشمنی ظمیر فروشی مفادت پرستی کو رد کرتے ہوئے سخت راہوں پر چلتے ہوئے قومی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل کیا جوکہ ہر محب وطن انسان کا یہ خواہش ہوتا ہے کہ اور یہ وہ مقام حاصل کرکے اپنے قوم اور مٹی کا قرض ادا کریں ۔

شہید میر نور الدین مینگل اور دیگر شہداء کی قربانیوں کو عملی جامعہ پہنانے اور اپنے قومی ہیروز کے نقش قدم پر چلنے کا بہترین طریقہ ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی خاطر مصلحت پسندی ،دروغ گوئی مفادت پرستی موقع پرستی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے طرز انداز کی رویہ اور سوچ کو ترک کرکے آنے والے تبدیلیوں اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے پارٹی کوتنظیمی طور پر دور جدید کے خطوط پر استوار سینٹفک بنیادوں پرمضبوط و منظم کرکے قومی تحریک میں ایمانداری مخلصی اور سچائی سے اپنا عملی کردار ادا کرنا ہوگا ۔