|

وقتِ اشاعت :   December 19 – 2013

imagesکوئٹہ(آن لائن ) بلوچستان نیشنل پارٹی نے افغان مہاجرین کے انخلاء کے بغیر مردم شماری کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ہوئے کہا ہے لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری غیر قانونی اور بلوچستان کے حقیقی عوام کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے اور عوام کے معاشی اور معاشرتی استحصال کے مترادف ہے جب تک بلوچ قوم کے خدشات اور تحفظات کو دور نہیں کیا جاتا کھلم طور پر ملکی و بین الاقوامی قوانین کے منافی اقدام ہو گا کیونکہ غیر ملکیوں کو مردم شماری کا حصہ بنایا جا رہا ہے افغان مہاجرین کے انخلاء کو یقینی بنانے ‘ انہیں کیمپوں تک محدود کرنے اور 1979کے بعد جتنے بھی مہاجرین کو شناختی کارڈ ‘ لوکل ‘ پاسپورٹ جعلی طریقے سے یا سیاسی بنیادوں پر جاری کئے گئے ان کی منسوخی کو یقینی بنایا جائے اب جس طریقے سے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے پشتون علاقوں میں سیاسی بنیادوں پر مہاجرین کو لوکلز جاری کرتے ہوئے انتظامیہ اور اسسٹنٹ کمشنر سیاسی بنیادوں پر غیر قانونی اقدامات کے مرتکب بنتے جا رہے ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ 1973ء سے قبل کے حقیقی مقامی باشندے چاہئے ان کا تعلق کسی بھی قوم ‘ فرقے سے ہو ان کیلئے دستاویزات جاری کرنا تو غیر قانونی اقدام نہیں لیکن سیاسی بنیادوں پر کوئٹہ ‘ پشتون علاقوں اور چاغی میں افغان مہاجرین کے پاسپورٹ ‘ شناختی کارڈ بنانے کا عمل جاری ہے جو قابل مذمت ہے حکمران سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر عوام کا مستقبل تباہ کرنے کی پالیسیوں کا سبب نہ بنیں بی این پی کسی ایسی مردم شماری کو تسلیم نہیں کرے گی جس میں غیر ملکیوں کو شمار کیا جائے کسی مصلحت پسندی اور جانبداری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے حالات و واقعات کا صحیح میں جائزہ لیا جائے اور وہ علاقے جہاں جعلی و غیر قانونی طریقے سے نادرا ‘ پاسپورٹ آفس والے ‘اسسٹنٹ کمشنرز حکمرانوں کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے غیر قانونی دستاویزات جاری کر رہے ہیں کو منسوخ کیا جائے بیان میں کہا گیا ہے کہ مہاجرین ہی کی بدولت بلوچستان میں مختلف قسم کے سماجی و معاشرتی مسائل کے انبار جنم لے چکے ہیں اور مذہبی تنگ نظری ‘ کلاشنکوف کلچر ‘ منشیات کا بے جا استعمال انہی کا دیا ہوا تحفہ ہے جو آج بھی بلوچستان کے عوام کیلئے مشکلات کا سبب بن رہے ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کے مختلف تعلیمی اداروں بالخصوص وویمن یونیورسٹی میں جونیئر ملازمین کو سینئر ملازمین کو فقویت دینا اور سیاسی بنیادوں پر تعلیمی اداروں میں بلا جواز مداخلت قابل مذمت ہے جس کی وجہ سے موجودہ دور حکمرانی میں مسائل حل ہونے کی بجائے بحران کی شکل اختیار کر رہی ہے تعلیم کا فروغ اور میرٹ کی باتیں محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ تعلیمی اداروں میں غیر جانبدار ہو کر پالیسیاں ترتیب دی جائیں اور ایسے غیر قانونی پروموشن ‘ تعیناتیوں کا سلسلہ بند کیا جائے ۔