بلوچستان کی احساس محرومی اور غربت کی ذمہ دار جہاں وفاقی حکومت کو ٹہرایا جاتا ہے وہاں ہمارے اپنے بلوچ رہنماء جو اقتدار میں رہے ہیں ،وہ بھی اس موجودہ غربت اور پسماندگی کے ذمہ دار ہیں ۔ہمارے رہنماء جس وقت اقتدار میں نہیں ہوتے تو اس وقت ان کا دل بلوچ عوام کے درد سے بھرا ہوا ہوتا ہے،مگر جونہی وہ اقتدار میں آتے ہیں تو وہ بھی اوروں کے ساتھ بلوچستان کی وسائل کی لوٹ مار میں شریک ہوجاتے ہیں۔
پھر وہ بلوچ کو بھول کر اپنے اور اپنے عزیزواقارب کو نوازنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وفاقی حکومت کی طرف سے بلوچستان کوکم فنڈ زملتے ہیں ،مگر حقیقت کی بات یہ کہ اگر انہی فنڈز کو ایمانداری سے استعمال کیا جاتا تو صوبے کی غربت میں کسی حد تک کمی آسکتی تھی مگر بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ ان فنڈز کا 10فیصد بھی استعمال نہیں کیا جاتا۔سارے پیسے چپراسی سے لیکر وزیروں تک کی کرپشن کی نظر ہو جاتے ہیں۔
بلوچستان کا کونسا محکمہ ہے جہاں بغیر پیسے کوئی کام ہوتا ہو ،اکاؤنٹنٹ جنرل کوئٹہ جو ہماری صوبائی حکومت کی ناک کے نیچے ہے وہاں بغیر رشوت دئیے کسی کام کے ہوجانے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا،چاہے وہ کسی غریب ملازم کی ریٹائرمنٹ کا مسئلہ ہو یا کسی بیوہ کی پنشن کا مسئلہ ،بغیر پیسے دیئے ان کاموں کا ہوجانا ناممکن ہے۔
اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر میں جائیں تو یہ دفتر کم ، کاروباری منڈی زیادہ نظر آئیگی۔کیا ہماری صوبائی حکومت کے علم میں یہ سب کچھ نہیں ہے۔ ضرور ان کو یہ سب کچھ معلوم ہے ،وہ جان بوجھ کر آنکیں بند کیے ہوئے ہیں کیونکہ ہر لین دین میں ان کا حصہ مقرر ہے جو ان کو ماہانہ بنیادوں پر بیٹھے بیٹھے مل جاتا ہے۔
صوبائی سیکرٹریٹ اور مختلف محکموں کے دفاتر میں فنڈز جاری کرنے کے لیے باقاعدہ پرسنٹیج مقرر ہوتا ہے۔مختلف ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے پیسے لیکر دیئے جاتے ہیں،اور وہ ٹھیکیدار کام کو کسی دوسرے پیٹی ٹھیکدار کواپنا کمیشن لیکر دیتا ہے۔
مختلف محلوں یا موضع کو اگر کوئی روڈ یا سکول کا بلڈنگ دیا جاتا ہے تو اس علاقے کی ترقی کے قطع نظر اس کا مقصد اس علاقے کے میر ،معتبر یا وڈیرہ کو نوازنا ہوتا ہے جوکہ ایک ترقیاتی سکیم نہیں بلکہ ایک سیاسی رشوت ہے، تاکہ وہ وڈیرہ ٹھیکیدار سے میل ملاپ کر کے کچھ پیسے ان سے بطور رشوت حاصل کر سکے۔
ٹھیکیدار کلی مالک یا علاقے کے وڈیرہ کو پیسہ دیئے بغیر کام شروع بھی نہیں کر سکتا،اسے پیسہ دینا ضروری ہے، اب صاف ظاہر ہے وہ ٹھیکیدار اپنے جیب سے تو وڈیرہ کو پیسے نہیں دے سکتا چنانچہ وہ کام کی معیار پر سمجھوتا کرتا ہے ،وہ ناقص میٹریل استعمال کرتا ہے۔مختلف عمارتوں کی تعمیر میں ٹھیکیدار سیمنٹ کم اور ریت زیادہ استعمال کرتا ہے ،اگر روڈ کی تعمیر ہے تو ڈامبر ،خاکہ کم لوکل مٹی زیادہ استعمال کرتاہے ۔
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ٹھیکیدار عمارت نہیں ریت کے گھروندے بناتے ہیں،پکے روڈ کی بجائے مٹی کا ڈھیر بناتے ہیں۔ان عمارتوں اور سڑکوں کو سرکاری آفیسران بھی اپنا کمیشن لیکر پاس کردیتے ہیں۔چپڑاسی سے لیکر وزیر تک سارے پیسے مل کر کھاتے ہیں۔
اس طرح بننے والی عمارتیں جلد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ختم ہوجاتی ہیں ،اور اس طرح بننے والی پکی سڑکیں تعمیر کے ایک ہفتہ کے اندر ہی اکھڑنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس طرح سے عوام کے نام پر جاری کیئے گئے فنڈز کو ضائع کیا جاتا ہے جو خون کے آنسو رلا دینے والی بات ہے۔
ایک صوبہ جو پہلے سے بہت ہی غریب ہو اور اس کے وارث اس کے دستیاب حقیر وسائل اس بیدردی سے لوٹیں۔ مزید ظلم یہ کہ کچھ ترقیاتی کام تو صرف کاغذوں کی حد تک کیئے جاتے ہیں ،فنڈز کے ریلیز سے لیکر کام کی تکمیل تک سب کچھ کاغذوں کی حد تک محدود ہوتا ہے۔
ہمارے صوبے میں غربت اور پسماندگی اگر کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تو اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں کہ ہمارے اپنے ہی لوگ صوبے اور بلوچ عوام کے ساتھ مخلص نہیں ہیں ،جب عوام ان کو ووٹ دے کر منتخب کرتی ہے تو وہ اقتدار کے ایوانوں جا کر صوبے کے دستیاب وسائل کو لوٹنے لگتے ہیں۔
ان کو یہ بھی احساس ہے کہ ہمارا صوبہ نہایت پسماندہ اور ہمارے لوگ انتہائی غریب ہیں مگر اس کے باوجودوہ کرپشن کے اس گھناؤنے جرم میں شامل ہوجاتے ہیں،اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے اپنے ہی ہمارے ساتھ مخلص نہیں ہیں تو ہم کسی اور کا رونا کیوں روئیں۔
ہمارا اپنا بھی قصور ہے کہ ہم بار بار ایسے ہی کرپٹ عناصر کو اپنا رہنماء بنا کر ایوانوں میں بھیجتے ہیں۔اگر ایک حلقے کے لوگ پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں اور اس حلقے کا ایم پی اے دبئی میں اپنے لیئے جائیدادیں بنا رہا ہو تو یہ اس حلقے کے لوگوں اور بلوچستان کی بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے،اگر بلوچستان کے ایک حلقے میں بسنے والے عام لوگوں کے پاؤں میں پہننے کو جوتا نہیں اور اس حلقے سے منتخب ہونے والا وزیر بن کر بڑی مہنگی گاڑیوں میں گھوم رہا ہو تو کیونکر بلوچستان ترقی کر سکتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پہلے ہی سے ہمارے صوبے کو وفاقی حکومت کی طرف سے کم فنڈز مل رہے ہیں ،ان دستیاب شدہ فنڈز کا استعمال بھی نہایت ہی شفاف طریقے سے 100فیصد کیا جاتا ،تاکہ صوبے کی غربت میں کمی آئے۔مگر افسوس اس طرح یہ لوگ نہیں سوچتے۔
پاکستان میں خاص کر ہمارے صوبے میں سیاست کا کھیل صرف سردار ،نواب اور میر اور وڈیرے ہی کھیل سکتے ہیں ،کوئی غریب یا متوسط طبقہ اس میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔
ان سرمایہ داروں کے پاس مال و دولت کی کمی تو ویسے نہیں مگر حیرانگی کی بات ہے کہ یہی لوگ پیسے کے حریص کچھ زیادہ ہی ہوتے ہیں ۔اگر یہ لوگ بلوچستان اور بلوچ قوم سے مخلص ہوجائیں اور صوبے کی دولت لوٹنے سے باز آجائیں تو لوگوں کی غربت میں کمی آسکتی ہے۔
بلوچستان میں وسائل کم ،کرپشن زیادہ
وقتِ اشاعت : March 15 – 2018