|

وقتِ اشاعت :   January 7 – 2014

کوئٹہ(آن لائن)بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے سندھ کی تقسیم پر فاشسٹ لسانی بہاری مہاجرین کے نعرہ کو پنجاب اور بالادست طبقہ خصوصاً مشرف کیس سے توجہ ہٹا کر سندھ میں موجود بلوچ اور سندھی اقوام کے درمیان رخنہ ڈال کر ان کی یکجہتی اور طاقت کو ختم کرنے کی روایتی پالیسی کا حصہ ہے تا کہ ان مہاجرین کے بل بوتے پر برا بری کا نعرہ لگا کر بلوچ اور سندھی دھرتی کے وسائل کو آسانی سے ہڑپ کیا جا سکے اور تاریخی سرزمین اور اس کے حقیقی باسیوں کو طاقت کے زور پر زیر کرکے ان کے سیاسی حقوق جو 67 سالہ جبر و استحصال سے اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ قوتوں کی خواہشات پر استعمال کیا جارہا ہے اس سے پہلے منصوبہ بندی کے تحت کراچی میں بلوچ قوم کے خلاف شاؤنسٹ تنظیم کی خواہش پر آپریشن کرکے نہتے بلوچ عوام پر ظلم و جبر کی تاریخ رقم کی گئی اور تاریخی خطہ پر آباد بلوچ و سندھی عوام کو تشدد و دہشت گرد عناصر کے ذریعے کمزور کرنے کی کوشش کی گئی اور اسی طرح بلوچستان میں افغان مہاجرین کے سیلاب سے بلوچ قومی وجود کو جنجوڑنے کی کوشش میں اسلام آباد و راولپنڈی معاہدہ کی روشنی میں اقتدار لیکر بلوچ سرزمین کو مختلف معاہدات پر تقسیم کرنے کا فارمولہ تیار کیا گیااور اس طرح آباد کار یا مہاجرین کو بلوچستان میں طفیلی ریاستی اداروں میں بلوچ برابری کی بنیادپر منصب نشین کیاگیاجس کے لئے نام ونہاد قوم پرست مشروط حکومتی جعلی مینڈیٹ کی حامل قوتوں کو بے اختیار عہد حکمرانی فراہم کی گئی جبکہ بلوچستان میں تبدیلی کے تمام دعوے صرف میڈیا میں ان منصب داروں کے نام سے سننے کو ملتے ہیں اور صورتحال بلوچستان کی انتہائی مخدوش ہے تربت مند سے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کوئٹہ کراچی شاہرہ پر ڈکیتی اور منگچر و خضدار میں ماہانہ بھتہ وصولی باقاعدہ سرکاری منصب نشین قوتوں کی شہہ پر قانونی کاروبار بن چکا ہے بلوچ اور سندھی سرزمین کو بیک وقت افغان اور بہاری مہاجرین کے ذریعے عدم استحکام کا شکار بنا کر سیاسی تبدیلیوں کا پیش نظر عسکری توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش میں مظلوم اقوام کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو کہ سندھی و بلوچ قوم کی تاریخی قومی و سیاسی او ثقافتی رشتوں کی بدولت ناکامی سے دوچار رہے گی لیکن بلوچ اور سندھی اقوام کے مستقبل اس ریاست میں ہمیشہ آقا اور غلام کا رہے گی اور اکیسویں صدی میں وسائل و عظیم ساحل کے مالک نان شبینہ کا محتاج اپنی دھرتی کے تقدس کی پامالی کا شکار ہے کیونکہ بالادستی برقرار رکھنے کے لئے بلوچ اور سندھی قوم کو ان آبادکار درآمدی مہاجرین کے ذریعے قابو کرنے کی پالیسی تقسیم کرو اور حکمت بناؤ انگریزی پالیسی کا تسلسل ہے جو اپنے آقا کی طرز حکمرانی جاری رکھا ہے بلوچستان میں اب بھی سول کرفیو کا سماں ہے سیاسی جدوجہد کو شجر ممنوعہ بنا دیا گیا ہے بلوچستان میں سیاسی نقل وحمل پر پابندی یاغداری کا کیس تیار ہے جبکہ بلوچستان اور سندھ کی تقسیم پر خاموشی اورپس پردہ حمایت دی جاتی ہے جو کہ بلوچ اور سندھی عوام کو سوچنا ہوگا کہ ان کا مستقبل کس طرح مشکلات سے دو چار ہے اس کے لئے یکجہتی بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر اپنی قومی وحدتوں کی حفاظت ناممکن ہے۔